0 / 0

فاریکس سسٹم میں کرنسیوں کی ڈیل کرنے اور ڈیل میں تاخیر پر فیس ادا کرنے کا حکم

سوال: 106094

کیا فارن ایکسچینج مارکیٹ  (forex) فاریکس میں کرنسیوں کا انٹرنیٹ پر لین دین جائز ہے؟ Rollover Rate – رول اوور ریٹ  (فاریکس میں رول اوور ریٹ سود کا وہ ریٹ ہوتا ہے جو تاجر یا تو ادا کرتا ہے یا حاصل کرتا ہے جب وہ ایک اوپن پوزیشن کو 12 گھنٹے کے لیے روکے رکھے۔) کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کلیئرنگ کے عمل کے بارے میں بھی آپ کی کیا رائے ہے ، اس میں معاہدہ ختم ہونے کے بعد بھی معاوضے کے عوض ایک سے دو دن کی مہلت دی جاتی ہے۔

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

کرنسی کا لین دین کرنا جائز ہے اگر فوری قبضہ ہو، اور لین دین کرتے ہوئے کوئی سودی شرط بھی نہ ہو، مثلاً: Rollover Rate – رول اوور ریٹ   اس میں نہ لگایا گیا ہو، یہ سرمایہ کار پر پیشگی مشروط منافع ہوتا ہے جو کہ اس نے اسی دن معاملہ پورا نہ کرنے پر دینا ہوتا ہے۔

اور قبضے کے متعلق گفتگو پہلے سوال نمبر: (72210 ) کے جواب میں گزر چکی ہے۔

اور جہاں تک Rollover – رول اوور ، اور مارجن ٹریڈنگ کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں اسلامی فقہ اکادمی کی طرف سے قرار داد جاری کی گئی ہے جس میں ہے کہ:
"تمام تعریفیں صرف اللہ تعالی کے لیے ہیں،  درود و سلام ہوں ہمارے اور آخری نبی سیدنا محمد -صلی اللہ علیہ و سلم – پر ، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر، بعد ازاں: رابطہ عالم اسلامی کے تحت اسلامی فقہ اکادمی کی کونسل  نے اپنے مکہ مکرمہ میں 10 -14  ربیع الاول 1427 ہجری بمطابق 8 – 12 اپریل 2006 عیسوی کو منعقد ہونے والے اٹھارویں اجلاس میں عنوان "مارجن ٹریڈنگ (Margin Trading)" [گاہک اپنی مطلوبہ چیز کی خریداری کرتے ہوئے تھوڑی سی ادائیگی کرتا ہے، اور بقیہ ادائیگی بطور قرض بروکر [بینک یا کوئی اور پارٹی  ] کرتی ہے، لیکن شرط یہ ہوتی ہے کہ خریدی گئی چیز بروکر کے پاس قرض کے عوض رہن  رہے گی۔] کے تحت پیش کیے گئے مقالات  اور ان پر کیے گئے مباحثے کو سن کر  کونسل نے یہ طے کیا کہ مارجن ٹریڈنگ میں درج ذیل چیزیں شامل ہوتی ہیں:

1-حصولِ نفع کی غرض سے دو طرفہ تجارت، اور یہ تجارت عام طور پر بین الاقوامی بڑی کرنسیوں کے مابین ، یا پرائز بانڈز یا حصص کی ہوتی ہے، بسا اوقات اس میں کچھ عینی چیزوں کی تجارت بھی ہوتی ہے، اس تجارت میں مستقبل کے معاہدے(Future Contract) اور آپشن معاہدے (Option Contract)  اور بڑی منڈیوں میں انڈیکس ٹریڈنگ (Index trading)بھی شامل ہے۔

2-قرض، یہ وہ رقم ہے جو بروکر  بینک ہونے کی صورت میں اپنے گاہک کو براہ راست   فراہم کرتا ہے، اور اگر بروکر بینک نہ ہو تو کسی اور کے ذریعے سے ادائیگی کرتا ہے۔

3-سود، مارجن ٹریڈنگ میں سود Rollover Rate – رول اوور ریٹ    کی شکل میں ہوتا ہے، جو کہ سرمایہ کار پر پیشگی مشروط منافع ہوتا ہے جو کہ اس نے اسی دن معاملہ پورا نہ کرنے پر دینا ہوتا ہے جو کہ قرض کی رقم پر تناسب کے حساب سے یا معین رقم کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے۔

4-دلالی کا کمیشن : اس کمیشن سے مراد وہ رقم ہے جو بروکر  کو سرمایہ کار کے ساتھ  کاروباری ڈیل کرنے کی وجہ سے ملتی ہے، اس کی مقدار خریداری یا فروختگی کی مالیت کے مجموعی حجم سے تناسب کے ساتھ مقرر کی جاتی ہے۔

5- گروی رکھنا،  سرمایہ کار  بروکر کے ساتھ یہ معاہدہ دستخط کرتا ہے کہ  اس تجارتی ڈیل کی دستاویزات  بروکر کے پاس قرض کی رقم کے عوض  گروی رہیں گے، نیز سرمایہ کار بروکر کو یہ اختیار دیتا ہے کہ  اگر اس کا خسارہ مارجن کے مخصوص تناسب تک پہنچ جائے تو بروکر اسے فروخت کر کے اپنے قرض کی رقم پوری کر لے۔ لیکن اگر سرمایہ کار قیمت کم ہونے کی صورت میں نقصان پورا کرنے کے لیے گروی  کی مقدار زیادہ کر دے تو بروکر اسے فروخت نہیں کرے گا۔

مذکورہ بالا امور پر غور و فکر کے بعد اجلاس نے یہ بیان دیا کہ یہ لین دین درج ذیل امور کی وجہ سے جائز نہیں ہے:

اول: اس میں واضح طور پر سود پایا جاتا ہے، جو کہ قرض کی رقم سے زیادہ   Rollover Rate – رول اوور ریٹ     کی صورت میں ہے، جو کہ واضح طور پر سود ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ * فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ ترجمہ: اے ایمان والو! تقوی الہی اپناؤ اور اگر تم مومن ہو تو باقیماندہ سارا سود چھوڑ دو  [278] اور اگر تم ایسا نہ کرو تو پھر اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ اور اگر تم توبہ کر لو تو تم اپنا رأس المال وصول کر سکتے ہو، تم کسی پر ظلم نہ ڈھاؤ اور نہ ہی تم پر ظلم کیا جائے گا۔  [البقرة: 278، 279]

دوم: بروکر کا یہ شرط لگانا کہ سرمایہ کار کرنسی کا لین دین اسی کے ذریعے سے کرے گا، اس سے یہ لازم آتا ہے کہ قرض اور معاوضہ  [دلالی کا کمیشن] یک جا اکٹھے ہو رہے ہیں، جو کہ ادھار اور بیع جمع کرنے کی صورت ہے جو کہ شرعی طور پر  منع ہے، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ادھار اور بیع یک جا کرنا جائز نہیں ہے۔۔۔) اس حدیث کو ابو داود: (3/384)  اور ترمذی: (3/526)نے روایت کیا ہے ، نیز ترمذی نے اسے حسن صحیح بھی قرار دیا ہے۔
تو بروکر یہاں پر اپنے قرض سے نفع اٹھا رہا ہے، اور تمام فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کوئی بھی قرض منافع کا باعث بنے تو وہ حرام سود ہے۔

سوم: بین الاقوامی منڈیوں میں جتنے بھی فاریکس ٹریڈنگ کے لین دین ہوتے ہیں عام طور پر ان میں متعدد حرام امور پائے جاتے ہیں، ان میں درج ذیل امور بھی شامل ہوتے ہیں:
1- پرائز بانڈز کی خرید و فروخت ، جو کہ حرام سود میں آتا ہے، اور اسلامی فقہ اکادمی جدہ نے اپنے چھٹے اجلاس کی 60 ویں قرار داد میں اس کی صراحت کی ہے۔

2-شرعی اور غیر شرعی لین کرنے والی کمپنیوں میں تفریق کیے بغیر ان کے حصص کی خرید و فروخت،  اس کے بارے میں رابطہ عالم اسلامی کے تحت اسلامی فقہ کونسل  کے چودہویں اجلاس  منعقد: 1415ہجری  میں واضح قرار داد ہے کہ: ایسی کمپنیوں کے حصص کی خرید و فروخت حرام ہے جس کی بنیادی تجارتی سرگرمی حرام ہے یا اس کے کچھ امور سودی  ہیں۔

3-کرنسی کا لین دین شرعی قبضے  کے بغیر ہی کیا جاتا ہے۔

4- مستقبل کے معاہدوں (Future Contract) اور آپشن معاہدوں  (Option Contract)   کی خرید و فروخت ہوتی ہے، حالانکہ اسلامی فقہ اکادمی جدہ نے اپنے چھٹے اجلاس کی 63 ویں قرار داد میں اس کی صراحت کی ہے کہ: یہ معاہدے شرعاً جائز نہیں ہیں؛ کیونکہ  معقود علیہ نہ تو کوئی مال ہے، نہ ہی سروس ہے، اور نہ ہی مالی حق ہے  کہ جس کا عوض لینا جائز ہو، ۔۔۔ یہی معاملہ مستقبل کے معاہدوں (Future Contract)  اور انڈیکس ٹریڈنگ (Index trading) کے بارے میں بھی ہے۔

5- کچھ صورتیں ایسی بھی بن جاتی ہیں کہ بروکر ایسی چیزیں فروخت کرتا ہے جو اس کی ملکیت میں ہی نہیں ہیں، اور جو چیز ملکیت میں موجود نہ ہو تو وہ شرعاً منع ہوتی ہے۔

چہارم: چونکہ مسؤلہ لین دین میں تمام فریقوں کو مالی نقصان  ہے، خاص طور پر سرمایہ کار کو، اور پوری تاجر برادری کو عام طور پر؛ کیونکہ ایسے لین دین سے قرضوں کا حجم بڑھتا چلا جاتا ہے، پھر بڑھتا ہے تو حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے، پھر اس لین دین میں افواہیں، سنسنی پھیلانے والی خبریں اور دھوکا دہی کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے، اسی طرح ناجائز ذخیرہ اندوزی، بولی پر ریٹ لگانا، اور قیمتوں کا شدید اتار چڑھاؤ   اس لیے کیا جاتا ہے  کہ فوری سے پہلے منافع کمایا جائے اور غیر شرعی طریقوں سے دوسروں کے مال کو ہتھیا لیا جائے، جو کہ اس طریقہ تجارت کو باطل طریقے سے مال ہڑپ کرنے کی ایک شکل بھی بنا دیتا ہے۔

پھر جلدی سے امیر ہونے کی خواہش کی بنا پر لوگ حقیقی تجارتی سرگرمیوں کو چھوڑ کر غیر حقیقی اور معاشرے کو نقصان پہنچانے والی  وہمی سرگرمیوں میں اپنا سرمایہ لگائیں گے ۔

اس لیے اسلامی فقہ اکادمی تمام مالیاتی اداروں پر زور دیتی ہے کہ شرعی طریقے سے دولت فراہم کریں جن میں سودی لین دین نہیں ہوتا، یا سودی لین دین کے شبہات بھی اس میں نہیں پائے جاتے، نیز ایسے انداز اپنائیں جن سے ان کے صارفین کو تحفظ حاصل ہو، اور اس کے لیے شرعی طریقے سے کاروباری شراکت داریاں یا اسی جیسی دیگر مفید سرگرمیاں اپنائیں۔
اللہ تعالی توفیق دینے والا ہے۔ اور درود و سلام نازل ہوں ہمارے پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ، آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر۔" ختم شد

ماخوذ از: مجلہ اسلامی فقہ اکادمی، شمارہ: 22، صفحہ نمبر: 229

ہم اللہ تعالی سے آپ کے لیے اور اپنے لیے کامیابی اور راہ راست کی دعا کرتے ہیں۔

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android