ميرے والد كچھ دن قبل فوت ہوئے ( ميري دعاء ہے كہ اللہ تعالي ان كے گناہ معاف فرمائےاور ان پر رحم كرے ) اور اپنے پيچھےخاندان كے مندرجہ ذيل افراد چھوڑے ہيں :
بيوي ، چار بيٹے ( ان ميں سے تين شادي شدہ ہيں اور ان كےتين پوتے بھي ہيں ) تين بہنيں ( ان ميں سے ايك شادي شدہ اور دوسري بيوہ اور تيسري بڑي عمر كي ہونےكےباوجود شادي شدہ نہيں ) والد اور والدہ .
ميں نےقرآن مجيد توپڑھا ہے ليكن ورارثت كي شروط سمجھنے مجھے مشكل پيش آئي ہے ، ميري گزارش ہےكہ تفصيل سےبيان كريں كہ اس كي املاك كي صحيح تقسيم كس طرح ہوگي ، اور اس املاك ميں سے ہميں كس تناسب سے صدقہ ( اگريہ واجب ہے ) كرنا ہوگا ؟
آپ كےليے ضروري ہے كہ آپ اپنے قريبي شرعي عدالت سےرجوع كريں تا كہ آپ مستحق قرضے اور ايك تہائي ميں ميت كي وصيت ادا كرسكيں ، پھر اس كے بعد ورثاء ميں وراثت كي شروط پائےجانے اور وراثت كےموانع نہ ہونے كي صورت ميں املاك تقسيم كي جائےگي .
حسب شروط اور كسي مانع كےنہ ہونے اور ان ورثاء كےعلاوہ كوئي دوسرا وارث نہيں تو:
بيوي فرع وارث ہونے كي بنا پر آٹھواں حصہ لےگي .
اور لڑكے كي صورت ميں ميت كي فرع وارث موجود ہونے كي بنا پر باپ كوچھٹا حصہ ملےگا .
اور فرع وارث موجود ہونےكي بنا پر ماں چھٹا حصہ حاصل كرےگي .
اور باقي مال بيٹوں ميں تقسيم ہوگا ( اگر وہ سب لڑكے ہيں تو وہ يہ مال آپس ميں برابر تقسيم كرينگے) ليكن پوتے اور بہنوں كا وراثت ميں كوئي حق نہيں اس ليے كہ وہ ( ميت كي فرع وارث جوكہ بيٹے ہيں ) موجود ہونے كي بنا پر محروم ہيں .