0 / 0

بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرنا

سوال: 1103

شیخ محترم! غیر مناسب سوال کرنے پر آپ سے معذرت چاہوں گا، میرا سوال یہ ہے کہ بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

بھائی ہم آپکا عذر قبول کرتےہیں ، اور اس قسم کے معاملات میں شرعی حکم جاننے کیلئے کوشش کرنا نہ حرام ہے اور نہ ہی عیب والی بات ہے، بلکہ یہ آپکا حق ہے۔

آپکا سوال کہ عورت کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرنے کا کیا حکم ہے، تو یہ کبیرہ گناہ ہے، چاہے حیض کے دنوں میں ہو یا عام دنوں میں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کام کرنے والے پر لعنت کی ہے، اور فرمایا: "ایسا شخص ملعون ہے جو عورت کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرتا ہے" امام احمد 2/479 نے اسے روایت کیااور یہ حدیث صحيح الجامع 5865 میں بھی ہے۔

بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا: (جس نے حائضہ سے جماع کیا یا بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کیا یا کسی کاہن کے پاس آیا تو اس محمد پر نازل شدہ -قرآن- سے کفر کیا) ترمذی نے اسے 1(/243) روایت کیا ہے اور یہ حدیث صحيح الجامع 5918 میں بھی موجود ہے۔

بہت سی فطرتِ سلیمہ کی مالک بیویاں اس بات کا انکار کرتی ہیں، لیکن کچھ شوہر اسے طلاق سے ڈرا دھمکا کر منوا لیتے ہیں، اور کچھ اپنی بیوی کو دھوکہ دیتے ہیں، بیوی شرم وحیا کی وجہ سے اہل علم سے پوچھ نہیں پاتی اور وہ اُسے کہہ دیتا ہے کہ یہ حلال ہے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خاوند کو اپنی بیوی کے ساتھ ہر طرح سے جماع کی اجازت ہے، آگے سے پیچھے سے بشرطیکہ اولاد کی جگہ جماع کیا جائے، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ پچھلی شرمگاہ پاخانے کی جگہ ہے اولاد کی جگہ نہیں ہے۔

اس جرم کا کچھ لوگوں میں سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ شادی کے پاک بندھن میں جاہلی اور غیر فطری طریقوں کو داخل کر دیتے ہیں، یا اسکی وجہ ذہن میں گندی فلموں کے مناظر ہوتے ہیں، حالانکہ انہیں ان سب گناہوں سے توبہ کی ضرورت ہے۔

یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ کام سراسر حرام ہے، چاہے میاں بیوی دونوں یہ کام کرنے راضی بھی ہوں، اس لئے کہ ان دونوں کی رضا مندی حرام کام کو حلال نہیں بنا سکتی۔

علامہ شمس الدین ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے اس فعل کی حرمت کے بارے میں کچھ حکمتیں اپنی کتاب زاد المعاد میں ذکر کی ہیں، آپ کہتےہیں:

"دُبر میں جماع کسی نبی کی شریعت میں جائز نہیں ہوا۔۔۔

– اور اگر اللہ تعالی نے فرج –آگے والی شرمگاہ- میں حیض کی حالت میں جماع صرف اس لئے حرام کیا ہے کہ عارضی طور پر اس گندگی ہوتی ہے، تو اس کے بارے میں کیا خیال ہے جو ہمیشہ ہی گندگی کی جگہ ہے؟ بلکہ اس میں نقصان بھی ہے کہ اس فعل سے نئی نسل پیدا نہیں ہوگی، اور یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ خواتین کی دُبر سے آگے چلتے ہوئے بچوں کے ساتھ بھی غیر فطری کام شروع کردیں۔

– عورت کا بھی اپنے خاوند پر حق ہوتا ہے ، اور دبر میں جماع سے اسکی حق تلفی ہوتی ہے، جس سے عورت کی شہوت پوری نہیں ہوتی، اور اسکا مقصود بھی حاصل نہیں ہوتا۔

– دبر کو اللہ تعالی نےجماع کیلئے نہیں بنایا، اور نہ ہی اسے اس کام کیلئے تیار کیا ہے، فرج ہی جماع کیلئے پیدا کی گئی ہے،چنانچہ فرج چھوڑ کر دبر میں جماع کرنے والے اللہ کی حکمت اور شریعت دونوں سے باہر نکل جاتے ہیں۔

– اس کام سے مرد کو نقصان ہوتا ہے، اسی لئے طبیب حضرات بھی اس سے منع کرتے ہیں، کیونکہ فرج میں پانی جذب کرنے کی صلاحیت ہے، اسی سے مرد کو سکون ملتا ہے، جبکہ دبر میں مکمل پانی جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، اور نہ ہی مکمل طور پر پانی دبر میں نکل پاتا ہے، کیونکہ یہ ہے ہی فطرت کے خلاف۔

– مرد کا ایک اور اعتبار سے بھی نقصان ہوتا ہے، کہ اسے اس کام کیلئے عجیب غریب قسم کی حرکتیں کرنی پڑتی ہیں، کیونکہ یہ کام ہے ہی فطرت کے خلاف۔

– یہ جگہ گندگی اور پاخانے کی ہے ، اور انسان اس جگہ کو اپنے سامنے رکھتا ہے اور گندگی اسکے جسم کو بھی لگ جاتی ہے۔

– عورت کیلئے بھی یہ نقصان دہ ہے، کیونکہ یہ فطرتِ سلیم کے بالکل منافی ہے۔

– یہ کام کرنے والے اور کروانے والے کے مزاج میں ایسی تبدیلی آتی ہے جسکی اصلاح ممکن نہیں، اگر توبہ کرلے تو شاید اللہ اسکی اصلاح فرمادے۔

– یہ کام لعنت کا موجب ، اور اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے جس سے اللہ کی نعمتیں زائل اور بندہ عذاب کا مستحق ٹھہرتا ہے، اللہ تعالی ایسا کام کرنے والے سے اعراض فرما لے گا ، اور اسکی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔

ذرا سوچیں! اس کے بعد اسے کس خیر کی امید ہوسکتی ہے، اور کس طرح تکالیف سے بچ سکتا ہے، انسان کی زندگی کیسی ہوگی جبکہ اللہ کی لعنت اس پر برستی ہو، اور اللہ اسکی طرف رحمت کی نگاہ سے نہ دیکھے؟!

– اس کام سے حیاء کلی طور پر رخصت ہوجاتا ہے، حالانکہ دل کی زندگی حیاء سے ہی ہے، اگر دل سے حیاء ہی مٹ جائے تو گناہوں کو بھی انسان اچھا سمجھنے لگتا ہے، اور اچھی چیزوں کو بُرا جاننے لگتا ہے۔یہاں آکر برائی اس پر مکمل حاوی ہوجاتی ہے۔

– اس کام سے انسان اس فطرت سے نکل جاتا ہے جس پر اللہ نے اسے پیدا فرمایا، اور اس میں حیوانیت آجاتی ہے، بلکہ حیوانیت سے بڑھ کر اپنی فطرت کو اُلٹ کر بیٹھتا ہے، اور جب فطرت ہی الٹ جائے تو دل، اُس کے کام ، اور چال چلن سب اُلٹا ہوجاتا ہے، اسی لئے بری چیزیں اسے اچھی لگنے لگتی ہیں ۔۔۔

– اس سے انسان میں مذموم قسم کی جرأَت پیدا ہوجاتی ہے، جو کسی اور گناہ سے پیدا نہیں ہوتی۔

اللہ کی طرف سے درود و سلام ہوں اس ہستی پر جسکی اتباع اور ہدایت میں کامیابی ہے، اور اس کی مخالفت میں ہلاکت اور تباہی و بربادی ہے"

مختصراً ماخوذ از کتاب: روضة المحبين 4/257 – 264

مزید وضاحت کیلئے سوال نمبر 6792 ملاحظہ کریں۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنے دین کی سمجھ عطا فرمائے، اور اسکی حرام کردہ اشیاء کی حدود پر رک جانے کی توفیق دے، وہ سننے والا اور قبول کرنے والا ہے.

ماخذ

الشیخ محمد صالح المنجد

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android