0 / 0

وسوسہ كے مريض كى اپنى بيوى كو تين طلاق دينے كا حكم

سوال: 143447

ايك شادى شدہ نوجوان آدمى جو جنون جيسے مرض كا شكار ہونے كى بنا پر ہر وقت پريشان سا رہتا ہے، اور كمزور حافظہ كى بنا پر وسوسے كا بہت زيادہ شكار ہے, وہ اپنے اس خاندان والوں كے ساتھ ہى رہائش پذير ہے جو نجوميوں اور بدفالي پر ايمان ركھتا ہے.

اسى بنا پر وہ اسے كہتے ہيں كہ اسے جو بيارى اور تكليف ہو رہى ہے اس كا سبب اس كى بيوى ہے اور وہ اسے منحوس قرار ديتے ہيں، كيونكہ اس كا ستارہ منحوس ہے، اور اگر وہ اسے نہيں چھوڑتا تو بيمارى بھى نہيں جائيگى.

اس نوجوان نے بيمارى سے شفايابى كا لالچ كرتے ہوئے بيوى كو تين طلاق كےالفاظ ادا كر ديے، ان الفاظ كى ادائيگى كرتے وقت اس كے پاس كوئى شخص نہ تھا حتى كہ بيوى بھى نہ تھى، اور بيوى كے گھر سے چلے جانے اور واپس نہ آنے كے خوف كى بنا پر اس نے اس كے بارہ ميں كسى كو بتايا بھى نہيں، وہ كچھ عرصہ اس كے پاس رہى حتى كہ اس كے بچے كو جنم ديا.

اس نوجوان نے اس كے متعلق دريافت كيا تو اسے كہا گيا كہ جب وہ اسے بتائےگا تو اس كے بعد اس پر عدت ہوگى پھر وہ اس سے رجوع كر سكتا ہے، اور اسے اب چار برس بيت چكے ہيں اس نوجوان نے كسى اور سے بھى دريافت كيا: تو اس شخص نے اسے بتايا كہ نہ تو اسے طلاق ہوئى ہے اور نہ ہى وہ عدت گزارے گى، ليكن تمہيں اللہ سے توبہ كرنى چاہيے.

برائے مہربانى مجھے يہ بتائيں كہ اس طلاق پر كيا مرتب ہوتا ہے، كيونكہ بيوى اب تك ميرے پاس گھر ميں ہے اور ميرى حالت بھى ويسى ہى ہے ؟

اور اس طرح كے اعمال كے صحيح ہونے اور ان سے فائدہ ہونے كا اعتقاد ركھنے والے كو آپ كيا نصيحت كرتے ہيں ؟

اور اسى طرح آپ بغير علم كے فتوى دينے والے لوگوں كو كيا نصيحت كريں گے.

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

سب تعريفاتاللہ سبحانہ و تعالى كى ہيں، اور اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر درود و سلاماور ان كے صحابہ اور ان كے طريقہ پر علم كرنے والوں پر اللہ كى رحمتيں نازل ہوں.

اما بعد:

علم نجومسيكھنا سكھانا اور اس پر يقين ركھنا بہت ہى برا كام ہے، اور يہ جادو كى ايك قسم ہے،نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ آپ نے فرمايا:

” جسشخص نے بھى علم نجوم ميں سے كچھ حاصل كيا اس نے جادو كى ايك قسم حاصل كى اور اس پرجو زيادہ كيا وہ زيادہ ہے “

اہل علمكے ہاں بالاجماع علم نجوم حرام ہے، اور علم نجوم يہ ہے كہ: حادثات يعنى بيمارى اورصحت اور فقر و تنگ دستى اور مالدارى وغيرہ ميں ستاروں كا اثر اندازى كرنے كااعتقاد ركھا جائے، اور يہ چيز نجوميوں كے اوہام ميں شامل ہے.

ليكن اصل ميں تو ستارے اللہ سبحانہ و تعالى نے آسمان كىزينت اور شيطانوں كو رجم كرنے كے ليے، اور خشكى و سمندر ميں راستہ تلاش كرنے كےليے پيدا فرمائے ہيں، ان كا حادثات كے ساتھ كوئى تعلق نہيں، نہ تو يہ كسى كى صحتپر اثرانداز ہوتے ہيں اور نہ ہى بيمارى پر، اور نہ ہى كسى كى مالدار ميں اثر كرتےہيں اور نہ ہى فقيرى ميں، اور نہ ہى بارش كے نزول ميں ان ستاروں كا كوئى اثر ہےاور نہ ہى كسى دوسرے چيز ميں.

بلكہ يہ تو ان نجوميوں كے وہم ہيں جن كے صحيح ہونے كىكوئى اساس تك نہيں ہے.

اور كسىبھى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ ان نجوميوں كے پاس جائے اور ان سے كسى چيزكے متعلق دريافت كرنا بھى جائز نہيں، نہ تو نجوميوں كے پاس جانا جائز ہے، اور نہہى فال نكالنےوالوں كے پاس جانا، اور اسى طرح سب كاہن اور جادوگروں كے پاس جانابھى جائز نہيں جو علم غيب جاننے كا دعوى كرتے ہيں، بلكہ ان سے بائيكاٹ كرنا واجبہے، اور حكومت كى جانب سے ان كو سزا دينا اور سختى كرنا واجب ہوتا ہے تا كہ يہلوگوں كو نقصان نہ دے سكيں اور انہيں گمراہ نہ كريں.

اننجوميوں وغيرہ سے سوال كرنا اور ان كى تصديق كرنا جائز نہيں كيونكہ نبى كريم صلىاللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” جوشخص بھى كسى نجومى كے پاس آيا اور اس سے كچھ دريافت كيا تو چاليس راتيں اس كى نمازقبول نہيں كى جائيگى”

العراف:نجومى كاہن اور فال نكالنے والے كو كہا جاتا ہے، اور ان جيسے ان افراد كو جو بعضغيب اشياء كا علم ركھنے كا دعوى كرتے ہيں، اور اس ميں وہ شيطانى طريقہ اختيار كرتےہيں يعنى علم نجوم كو ديكھنا، يا پھر لاٹھى سے مارنا وغيرہ دوسرے غلط طريقوں سے.

اور ايكحديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” جوشخص كسى كاہن كے پاس آيا اور اس كے قول كى تصديق كى اس نے محمد صلى اللہ عليہ وسلمپر نازل كردہ كا كفر كيا “

ان كىخبريں باطل ہوتى ہيں، اور ان سے دريافت كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى ان كى تصديقكرنا جائز ہے، اور جو شخص بھى ايسا كرے ان سے سوال يا ان كى تصديق كرے اسے توبہ واستغفار كرنى چاہيے، اور اپنے كيے پر نادم ہو اور آئندہ ايسا نہ كرنے كا عزم كرے.

رہا اسطلاق دينے والے نوجوان شخص كا معاملہ تو اگر اس كى عقل اس كے ساتھ ہے تو يہ طلاقواقع ہو چكى ہے، ليكن يہ ايك طلاق ہو گى، كيونكہ علماء كرام كے صحيح قول كے مطابقتو ايك ہى مجلس ميں دى گئى يا لكھى گئى تين طلاق صرف ايك ہى واقع ہوتى ہے.

كيونكہابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث سے يہى ثابت ہوتا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:

“نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں تين طلاق ايك ہى طلاق شمار ہوتى تھى، اوراسى طرح ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كے دور خلافت ميں بھى، اور اسى طرح عمررضى اللہ تعالى عنہ كے ابتدائى دور خلافت ميں “

پھر عمررضى اللہ تعالى عنہ نے بعد ميں تين طلاق دينے والى كى طلاق كو تين ہى جارى كر ديا،اور فرمايا:

لوگوں ميںاس معاملہ جلدى كرنا شروع كر دى ہے جس ميں ان كے ليے انتظار تھا، اس ليے اگر ہم انپر يہ جارى كر ديں تو انہوں نے اسے جارى كر ديا.

ليكن رسولكريم صلى اللہ عليہ وسلم كے عہد مبارك ميں تو ايك ہى مجلس كى تين طلاقوں كو ايكطلاق شمار كيا جاتا تھا، ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا تو يہى فرمان ہے.

ليكن اگراس نوجوان كى عقل بيمارى كى وجہ سے صحيح نہيں اور ثقہ قسم كے اشخاص اس كو جانتےہيں تو يہ نوجوان عقل سے ماؤف شمار ہوگا، اور اس طرح كے شخص كى طلاق واقع نہيںہوتى.

ليكن اگراس كى عقل صحيح ہے اور بيمارى نے اس كى عقل پر اثر نہيں كيا تو اس كى ايك طلاقواقع ہو جائيگى اور بيوى سے بغير رجوع كيے اسے اپنے پاس ركھنا غلط ہوگا.

اور بيوىسے جماع كرنا اس كا رجوع شمار ہوگا، اگر وہ بيوى سے جماع ميں رجوع كا ارادہ ركھےتو صحيح قول كے مطابق رجوع كى نيت سے جماع كرنا رجوع كہلائيگا، ليكن رجوع كى نيتكے بغير رجوع كرنے ميں علماء كرام كا اختلاف ہے آيا يہ رجوع ہو گا يا نہيں.

صحيح يہىلگتا ہے كہ اس رجوع كى بنا پر علم نہ ہونے كى باعث وہ گنہگار ہوگا، اور حمل كىحالت ميں بيوى سے جماع كرنا اس كا رجوع ہو گا اور وہ اس كى بيوى بن جائيگا، اور اسكى ايك طلاق شمار كى جائيگى.

ليكن اگراس نے بيوى سے جماع اور ہم بسترى نہيں كى اور نہ ہى اب تك اس سے رابطہ كيا ہے تووضع حمل كى بنا پر وہ اپنى عدت پورى كر چكى ہے، اور اس كى ايك طلاق ہوچكى ہے اسنوجوان كو حق ہے كہ وہ اس سے نئے مہر اور نئے نكاح كے ساتھ شادى كر لے، جس طرحكوئى عام شخص كرتا ہے.

اور وہ اسسے اجنبى ہوگا گويا كہ وہ اس عورت كا رشتہ اپنے ليے طلب كر رہا ہے، اگر بيوى اس سےشادى كرنے پر راضى ہو تو وہ نئے مہر اور نكاح كے ساتھ شادى كر لے كيونكہ وضع حملكى بنا پر اس كى عدت پورى ہو چكى ہے، يہ اس صورت ميں ہے جب طلاق كے بعد اس نے بيوىسے ہم بسترى نہيں كى.

ليكن اگراس نے طلاق كے بعد بيوى سے ہم بسترى كر لى تو يہ رجوع شمار ہوگا، اور وہ اس كے پاسباقى رہے گى، اس كے پاس دو طلاقوں كا حق باقى رہے گا اور وہ ايك طلاق شمار ہوجائيگى، اگر اس نے پہلے كوئى طلاق نہ دى ہو تو يہ ايك طلاق ہو جائيگى.

اللہتعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ سب كو ہدايت نصيب فرمائے.

اور وہلوگ جنہوں نے يہ طلاق نہ ہونے كا فتوى ديا ہے وہ غلط ہے، ہاں اگر اس كى عقل صحيحنہ تھى تو پھر يہ طلاق نہيں ہوئى، يعنى پاگل كى طرح ہو تو طلاق نہيں ہوتى.

ليكن اسشخص كا يہ سوال اس كى دليل ہے كہ وہ شخص عقل ركھتا ہے، كيونكہ اس كا يہ سوال صحيحہے، اگر يہ سوال اس كى اپنى جانب سے ہے تو يہ اس كى عقل صحيح ہونے كى دليل ہے.

ليكن اگريہ سوال كسى دوسرے شخص نے اس كى جانب سے بنا كر پيش كيا ہے تو بہر حال ہر حالت ميںآپ ان افراد سے دريافت كريں جو ثقہ ہوں اور تجربہ كار بھى اور اس شخص كو جانتے بھىہوں، اگر وہ اس نوجوان كى عقل كے متعلق جانتے ہيں كہ عقل ماؤف ہے اور اپنى بات كوياد نہيں ركھتا اور اچھى بات كر بھى نہيں سكتا، اور اس كے افعال اور اقوال پاگلوںاور نشئيوں اور كم عقلوں كى طرح عقل ماؤف ہونے پر دلالت كريں تو اس شخص كى طلاقواقع نہيں ہوگى.

اس ليے ہمسب طلباء اور علماء كو اور ہر اس شخص كو جس سے كوئى سوال كيا جائے كو نصيحت كرتےہيں كہ وہ بغير علم كوئى بھى فتوى نہ ديں، كيونكہ اللہ پر بغير علم كے كوئى باتكرنا كبيرہ گناہ اور سب سے بڑى گمراہى ہے.

حتى كہاللہ سبحانہ و تعالى نے اسے تو شرك سے بھى اوپر كہا ہے، اللہ تعالى كا فرمان ہے:

كہہديجئے ميرے پروردگار نے صرف حرام كيا ہے ان تمام فحش باتوں كو جو علانيہ ہيں، اورجو پوشيدہ ہيں اور ہرگناہ كى بات كو اور ناحق كسى پر ظلم كرنے كو اور اس بات كو كہتم اللہ كے ساتھ كسى ايسى چيز كو شريك ٹھراؤ جس كى اللہ نے كوئى سند اور دليل نازلنہيں كى، اور اس بات كو كہ تم لوگ اللہ كے ذمے ايسى بات لگاؤ جس كو تم جانتے ہىنہيں الاعراف ( 33 ).

چنانچہيہاں اللہ عزوجل نے بغير علم كے اللہ كے ذمہ بات لگانے كو شرك سے اوپر بيان كياہے، اور يہ بہت خطرناك چيز ہے.

اور ايكدوسرى آيت ميں اللہ سبحانہ و تعالى نے بيان كيا ہے كہ يہ شيطانى عمل ہے.

فرمانبارى تعالى ہے:

لوگوزمين ميں جتنى بھى حلال اور پاكيزہ اشياء ہيں انہيں كھاؤ پيو اور شيطانى راہ پر نہچلو، وہ تمہارا كھلا اور واضح دشمن ہے

وہ تمہيںصرف برائى اور بےحيائى كا اور اللہ تعالى پر ان باتوں كے كہنے كا حكم ديتا ہے جنكا تمہيں علم نہيں البقرۃ ( 168 – 169 ).

چنانچہيہاں اللہ سبحانہ و تعالى نے بغير علم كے اللہ پر كوئى بات كرنا شيطانى اوامر قراردى ہے، اللہ تعالى سے ہم سلامتى و عافيت كے طلبگار ہيں.

اس ليےمسلمان شخص پر واجب اور ضرورى ہے كہ وہ اس سے بچ كر رہے، اور علم و بصيرت كے ساتھہى كوئى بات كرے اور دليل كے ساتھ اللہ كے حكم كا علم ركھے بغير يہ مت كہے كہ اللہكا فرمان ہے يا اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے يا پھر اہل علم كااجماع ايسے ہے.

اگر فتوىدے تو وہ بصيرت و علم پر فتوى دے، اور اس كى اس كے پاس دليل بھى ہو، اگر ايسا نہيںتو اسے اس كے انجام سے بچنا چاہيے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى پر بغير علم كےكوئى بات كرنا بہت خطرناك معاملہ ہے، اللہ تعالى ہميں محفوظ ركھے ” انتہى

فضيلۃالشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ

ماخذ

ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 3 / 1680 - 1683 )

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android