ایک شخص نے شادی کی تواس کے سسرال والوں نے یہ شرط رکھی کہ جس عورت سے بھی وہ شادی کرے گا اسے طلاق ہوگی ، پھر خاوند نے دوسری شادی کرلی اب مذاھب اربعہ میں اس کا حکم کیا ہے ؟
پہلی بیوی کی شرط کہ اگر خاوند دوسری شادی کرے تو دوسری بیوی کو طلاق
سوال: 21860
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ بالا سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا :
امام شافعی کے ہاں یہ شرط لازم نہیں ، اورامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی نے اسے لازم قرار دیا ہے کہ جب بھی خاوند شادی کرے کا طلاق واقع ہوجائے گی ، اورجب بھی وہ کوئي لونڈی حاصل کرے گا وہ بھی آزاد ہوگی ، اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کا مسلک بھی یہی ہے ۔
لیکن امام احمد رحمہ اللہ تعالی کے مسلک میں یہ طلاق واقع نہیں ہوگی اورنہ ہی لونڈی آزاد ہوگی ، لیکن جب وہ شادی کرلے یا پھر لونڈی رکھے تو پہلی بیوی کو اختیار ہے چاہے وہ اس کے ساتھ رہے یا اپنے خاوند سے علیحدگي اختیار کرلے ۔
کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( وہ شرطیں سب سے زیادہ پورا کرنے کی حقدار ہیں جن سے تم شرمگاہ حلال کرتے ہو ) ۔
اور اس لیے کہ ایک مردنے عورت سے شادی اس شرط کی بنا پر کی کہ اس کی موجودگی میں دوسری شادی نہيں کرے گا ، تویہ معاملہ عمر رضي اللہ تعالی عنہ تک لے جایا گيا تو انہوں نے فرمایا :
( شروط سے حقوق ختم ہوجاتے ہیں ) ۔
تو اس طرح اس مسئلہ میں تین اقوال ہوئے :
پہلا قول : اس سے طلاق ہوجائے گی ۔
دوسرا قول : اس سے طلاق نہيں ہوگی ، اوربیوی کو علیحدگي کا حق حاصل نہيں ہوگا ۔
تیسرا قول : یہ قول سب سے زيادہ بہتر ہے ، اس سے نہ تو طلاق ہوگي اور نہ ہی لونڈی آزاد ہوگی ، لیکن بیوی نے جو شرط رکھی ہے اسے اس کا حق حاصل ہے اگر تو وہ چاہے توخاوند کے ساتھ رہے اوراگر چاہے تو اس سے علیحدگی اختیار کرسکتی ہے ۔ یہ سب اقوال سے اوسط ہے ۔ .
ماخذ:
دیکھیں الفتاوی الکبری ( 3 / 125 ) ۔