ايك جماعت نے كچھ مال جمع كيا تا كہ ممبران ميں سے كسى كو بھى مصيبت كے وقت ديا جا سكے، مثلا قتل خطا كى ديت وغيرہ، اور يہ مال انہوں نے تجارت ميں لگا ديا تا كہ اس كى سرمايہ كارى ہو سكے، اور اس كا منافع ان خيراتى كاموں ميں صرف ہو جس پر اتفاق كيا گيا ہے، تو كيا اس رقم ميں زكاۃ واجب ہو گى يا نہيں ؟
اور كيا اس خيراتى فنڈ ميں زكاۃ دى جا سكتى ہے ؟
اگر تو واقعتا ايسا ہى ہے جيسا سوال ميں مذكور ہے، تو مذكورہ مال ميں زكاۃ نہيں، كيونكہ يہ وقف كے حكم ہے، چاہے وہ مال مجمد ہو يا اسے تجارت ميں لگايا گيا ہو، اور اس ميں زكاۃ دينى جائز نہيں، كيونكہ يہ فقراء و مساكين كے ليے مخصوص نہيں، اور نہ ہى يہ دوسرے كسى مصاريف زكاۃ كے ليے ركھا گيا ہے.