0 / 0

حاجی عرفات سے نکلا اور مزدلفہ جائے بغیر طواف افاضہ کر لیا ، یا مزدلفہ طواف افاضہ کے بعد آیا۔

سوال: 295547

حاجی مزدلفہ جائے بغیر عرفات میں سے سیدھا طواف افاضہ کرنے چلا گیا اور احرام کھول دیا، پھر اس کے بعد مزدلفہ گیا تا کہ کنکریاں مار لے، تو کیا اس کا حج صحیح ہے؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

الحمدللہ:

اول:

فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ طواف افاضہ حج کے ارکان میں سے ایک رکن ہے، اور اس کے بغیر حج مکمل نہیں ہو گا، تاہم اس کی ادائیگی کا وقت کب شروع ہوتا ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔

تو حنفی اور مالکی فقہائے کرام کہتے ہیں طواف افاضہ کی ادائیگی کا وقت 10 ذوالحجہ یعنی قربانی والے دن یوم نحر کی فجر سے شروع ہوتا ہے، اس سے پہلے طواف افاضہ کوئی کر لے تو صحیح نہ ہو گا۔

جیسے کہ حنفی فقہ کی کتاب: “بدائع الصنائع” (2/132) میں ہے کہ:
“طواف افاضہ کرنے کے وقت کا آغاز: دس ذوالحجہ کو فجر ثانی کے طلوع ہونے سے شروع ہوتا ہے ، اس میں ہمارے فقہائے کرام کا کوئی اختلاف نہیں ہے، بلکہ صبح فجر سے قبل طواف افاضہ کرنا جائز ہی نہیں ہے۔

اور امام شافعی کا کہنا ہے کہ قربانی والے دن کی نصف رات کو طواف افاضہ کا اول وقت شروع ہو جاتا ہے۔” ختم شد

اور مالکی فقہ کی کتاب: “بلغۃ السالک” میں ہے کہ:
“طواف افاضہ کا وقت یوم النحر میں طلوع فجر سے شروع ہوتا ہے، اس سے قبل طواف افاضہ صحیح نہ ہو گا، بالکل ایسے ہی جس طرح جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے سے قبل کسی بھی جمرے پر رمی کرنا جائز نہیں ہے۔” ختم شد

جبکہ شافعی اور حنبلی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ قربانی والے دن کی آدھی رات سے ہی طواف افاضہ کرنا جائز ہے۔

جیسے کہ شافعی فقیہ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جمرہ عقبہ اور طواف افاضہ کا وقت قربانی والے دن کی آدھی رات سے شروع ہو جاتا ہے، لیکن اس کے لئے شرط ہے کہ اس سے پہلے وقوف عرفہ کر لیا ہو۔

سر منڈوانا: اگر یہ مناسک میں شامل ہو تو اس کا حکم رمی اور طواف والا ہے۔

وگرنہ اس کا وقت بھی رمی اور طواف کرنے کے بعد ہی شروع ہو گا۔” ختم شد
“المجموع” (8/191)

حنبلی فقیہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“طواف افاضہ کے دو اوقات ہیں: ایک افضل وقت اور دوسرا جائز وقت:

افضل وقت : قربانی کے دن ہوتا ہے جو کہ رمی، قربانی اور سر منڈوانے کے بعد شروع ہوتا ہے۔۔۔
جائز وقت یہ ہے کہ: قربانی والے دن کی آدھی رات سے شروع ہوتا ہے، یہی موقف امام شافعی کا بھی ہے۔

جبکہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
طواف افاضہ کا اول وقت قربانی والے دن طلوع فجر سے شروع ہوتا ہے، اور اس کا آخری وقت قربانی کے دن ختم ہونے تک ہے۔” ختم شد
“المغنی” (3/226)

مندرجہ بالا تفصیلات کے مطابق: اگر اس حاجی نے آدھی رات کے بعد طواف افاضہ کیا تو شافعی اور حنبلی فقہائے کرام کے مطابق اس کا حج صحیح ہے۔

آدھی رات کا وقت پہچاننے کے لئے مغرب اور فجر کے درمیان کا کل وقت دیکھیں اور پھر اسے دو پر تقسیم کر دیں۔

اور اگر انہوں نے آدھی رات سے پہلے ہی طواف کر لیا تھا تو فقہائے کرام کے ہاں متفقہ طور پر حج مکمل نہیں ہوا، اور اسے تحلل ثانی حاصل نہیں ہوا، اس لیے اس پر ضروری ہے کہ طواف افاضہ دوبارہ سے کرے۔

دوم:

مزدلفہ میں رات گزارنا جمہور علمائے کرام کے ہاں واجب ہے، جبکہ کچھ نے یہ لکھا ہے کہ مزدلفہ میں رات گزارنا رکن ہے۔

اب رات کا کتنا حصہ مزدلفہ میں گزارنا ضروری ہے، اس کے بارے میں متعدد اقوال ہیں:

“شافعی اور حنبلی فقہائے کرام کے ہاں: مزدلفہ میں آنا ضروری ہے چاہے ایک لمحے کے لئے آئے، تاہم یہ شرط ہے کہ مزدلفہ میں آمد وقوف عرفہ کے بعد رات کے دوسرے نصف حصے میں ہو، یہاں رکنا اور ٹھہرنا شرط نہیں ہے، صرف مزدلفہ سے گزرنا بھی کافی ہے۔

آدھی رات سے قبل جو شخص مزدلفہ سے نکل جائے اور پھر فجر سے قبل واپس آ جائے تو اس پر کچھ نہیں ہے؛ کیونکہ اس کے فجر سے قبل واپس آنے سے واجب ادا ہو گیا، اور اگر آدھی رات کے بعد واپس نا آیا اور طلوع فجر ہو گئی تو راجح موقف کے مطابق اس پر دم ہے۔

جبکہ حنفی فقہائے کرام کے ہاں مزدلفہ میں طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک وقوف واجب ہے، اس لیے ان کے ہاں اس دورانیے میں مزدلفہ میں ہونا ضروری ہے چاہے ایک لمحے کے لئے ہی کیوں نہ ہو، تاہم اگر کوئی شخص کسی عذر کی بنا پر مزدلفہ میں نہیں آتا تو اس پر کچھ نہیں ہے، یہاں عذر سے مراد یہ ہے کہ حاجی بوڑھا ہو، یا بیمار ہو، ایسے ہی بھیڑ سے خوف زدہ عورت بھی صاحب عذر ہے۔

اگر کوئی بغیر کسی عذر کے مزدلفہ سے آدھی رات سے قبل روانہ ہو جائے تو اس پر دم ہے۔

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ طلوع آفتاب سے قبل مزدلفہ واپس لوٹ جائے تو اس پر دم نہیں ہوگا۔

جبکہ مالکی فقہائے کرام کے ہاں اتنی دیر مزدلفہ میں رکھنا لازمی ہے جتنی دیر میں اونٹ کا پالان اتارا جاتا ہے، چنانچہ اگر کوئی اتنی دیر طلوع فجر تک مزدلفہ میں نہیں رہتا تو اس پر دم واجب ہے، الا کہ نہ رکنے کا کوئی عذر ہو، لہذا اگر کسی عذر کی بنا پر اتنی دیر نہیں رکا تو اس پر کچھ نہیں ہے۔” ختم شد
“الموسوعة الفقهية” (11/108)

اس بنا پر:

اگر یہ حاجی پہلے تو مزدلفہ آیا ہی نہیں اور پھر آدھی رات کے بعد اس نے طواف افاضہ کر لیا اور پھر دوبارہ آدھی رات کے بعد مزدلفہ پہنچ گیا تو اس پر کچھ نہیں ہے۔

اور اگر طواف کے بعد مزدلفہ کسی ایسے عذر کی وجہ سے نہیں آ سکا جس کی بنا پر مزدلفہ میں رات نہ گزارنے کی گنجائش پیدا ہوتی ہو ، مثلاً: بیماری وغیرہ کہ اس عذر کی وجہ سے مزدلفہ میں رکنا ممکن نہ ہو تو تب بھی اس پر کوئی دم نہیں ہے۔

اور اگر یہ حاجی بغیر کسی عذر کے ہی مزدلفہ نہیں آیا تو اس پر دم ہے۔

خطیب شربینی رحمہ اللہ “مغنی المحتاج” (2/265) میں کہتے ہیں:
“جبکہ معذور افراد جن کی تفصیل آگے آئی گی، ان پر یقینی طور پر دم واجب نہیں ہے۔
معذور افراد میں یہ لو گ بھی شامل ہیں:
جو عرفات رات کو پہنچے اور وہیں پر وقوف میں مشغول ہو گئے۔

جو عرفات سے مکہ کی جانب طواف افاضہ کے لئے روانہ ہو جائے اور مزدلفہ میں آنے کا وقت نہ ملے۔

اذرعی کہتے ہیں : یہاں وہ شخص مراد ہونا چاہیے جس کے لئے مزدلفہ بغیر مشقت کے آنا ممکن نہ ہو، اگر بغیر مشقت کے آنا ممکن ہے تو پھر یہ واجب ہے، تا کہ دونوں واجب عمل ادا ہو جائیں۔ یہ بات بالکل واضح ہے۔

معذور افراد میں ایسی عورت بھی شامل ہے جسے حیض یا نفاس آنے کا ڈر ہے تو وہ مکہ میں طواف کے لئے جلدی روانہ ہو جاتی ہے۔” ختم شد
“المجموع” (8/153)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
ایسے شخص کا کیا حکم ہے جو مزدلفہ میں رات نہ گزارے؟

تو انہوں نے جواب دیا:
“جو شخص مزدلفہ میں رات نہ گزارے تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: 

فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا الله عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ 

 ترجمہ: پس جب تم عرفات سے واپس ہو تو مشعر الحرام کے پاس اللہ کا ذکر کرو۔ [البقرۃ: 198] اور مشعر الحرام سے مراد مزدلفہ ہے۔

چنانچہ اگر کوئی مزدلفہ میں رات نہیں گزارتا تو وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی کرتا ہے؛ اس لیے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی وہاں پر رات گزاری اور فرمایا: مجھ سے حج کا طریقہ سیکھ لو اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کمزور لوگوں کے علاوہ کسی کو بھی مزدلفہ میں رات گزارنے سے رخصت نہیں دی، کمزور لوگوں کو بھی صرف اتنی رخصت دی کہ وہ رات کے آخری حصے میں مزدلفہ سے چلے جائیں۔

اس لیے اس حاجی پر علمائے کرام کے نزدیک یہ ہے کہ وہ مکہ میں ایک جانور ذبح کرے اور وہ وہیں پر فقرائے حرم میں تقسیم کیا جائے” ختم شد
“مجموع فتاوى شیخ ابن عثیمین” (23/97)

سوم:

اگر اس حاجی نے طواف افاضہ کر لیا اور پھر سر کے بال کتروا کر یا منڈوا کر احرام کھول دیا اور سلا ہوا لباس زیب تن کر لیا تو اس پر کچھ نہیں ہے؛ کیونکہ تحلل اول تین کاموں میں سے دو کام کرنے سے حاصل ہو جاتا ہے، وہ تین کام یہ ہیں: کنکریاں مارنا، بال کٹوانا، اور طواف افاضہ۔

 چنانچہ اگر اس حاجی نے صرف طواف افاضہ کے بعد اور سر کے بال کتروانے یا منڈوانے سے پہلے سلا ہوا لباس پہنا تو اس نے ممنوع کام کا ارتکاب کیا ہے۔

لہذا اگر اسے معلوم نہیں تھا ، وہ جاہل تھا تو اس پر کچھ نہیں ہے۔

اسی طرح اگر اس نے اپنی جہالت کی وجہ سے یہ سمجھتے ہوئے خوشبو استعمال کر لی کہ تحلل اول حاصل ہو گیا ہے تو تب بھی اس پر کچھ نہیں ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android