0 / 0

قبلہ رخ ميں غلطى

سوال: 42574

ميرے ايك پڑوسى نے مجھے بتايا كہ ميں جس طرف رخ كر كے نماز ادا كرتى ہوں وہ صحيح نہيں، اور قريبى مسجد كے قبلہ رخ كى سمت كے مطابق نہيں ہے، اس بنا پر ميں نے كچھ ماہ تك رخ تبديل كيے ركھا، جس ميں پچھلا رمضان بھى شامل ہے، پھر يہ واضح ہوا كہ پہلى سمت ہى صحيح تھى، چنانچہ غلط سمت كى جانب رخ كر كے ادا كردہ نمازوں كا حكم كيا ہے ؟
برائے مہربانى جواب دے كر مشكور ہوں.

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

نماز ميں استقبال قبلہ نماز كے صحيح ہونے كى شروط ميں شامل ہے، اس ليے ہر نمازى كو اپنى نماز قبلہ رخ ہو كر ادا كرنى چاہيے، يا تو علامات، يا پھر آلات وغيرہ كے ساتھ سمت صحيح كرنے كى كوشش كرنى چاہيے، اگر ايسا ممكن ہو، يا پھر وہاں كے بسنے والوں ميں سے قبلہ كى سمت كا علم ركھنے والوں سے معلوم كر كے.

آپ نے جو حالت بيان كى ہے، اس ميں غالبا يہى معلوم ہوتا ہے كہ سمت ميں تھوڑا سا فرق تھا، اور يہ تھوڑا سا انحراف ايسا ہے جس ميں عام طور پر كسى جگہ بسنے والوں ميں تردد ہو جاتا ہے؛ وہ اس طرح كہ دو جہتوں ميں فرق كى طرف انسان متنبہ نہيں ہوتا.

چنانچہ اگر تو معاملہ ايسا ہى ہے يعنى قبلہ كى سمت سے قليل سا انحراف تھا تو اس ميں كوئى نقصان نہيں، اور اس سے نماز باطل نہيں ہوتى كيونكہ كعبہ سے دور بسنے والوں كے ليے اس كى جہت كى طرف رخ كرنا واجب ہے، اور ان كے ليے يہ شرط نہيں كہ وہ بعينہ ہى كعبہ كى طرف رخ كريں، اس كى دليل ترمذى اور ابن ماجہ كى درج ذيل حديث ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مشرق و مغرب كے مابين قبلہ ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 342 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1011 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے الاراوء الغليل ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

سبل السلام ميں صنعانى رحمہ اللہ اس كى شرح كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" يہ حديث جہت اور سمت كى طرف رخ كرنے كے وجوب كى دليل ہے نہ كہ بعنيہ كعبہ كى طرف رخ كرنے ميں معذور شخص پر بعنيہ كعبہ كى طرف رخ كرنے پر.

ديكھيں: سبل السلام ( 1 / 260 ).

اور يہ حديث بھى دليل ہے:

ابو ايوب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تم پيشاب يا پاخانہ كرنے جاؤ تو قبلہ رخ نہ بيٹھو، اور نہ ہى قبلہ كى طرف پيٹھ كرو، ليكن مشرق يا مغرب كى طرف رخ كرو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 144 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 264 ).

شيخ الاسلام رحمہ اللہ " العمدہ كى شرح " ميں لكھتے ہيں:

( يہ اس بات كا بيان ہے كہ مشرق اور مغرب كے علاوہ كسى اور طرف رخ كرنے ميں قبلہ كى طرف رخ كرنا يا پشت كرنا ہے.

اور يہ اہل مدينہ اور ان كى سمت ميں بسنے والوں كو خطاب ہے… كيونكہ يہ صحابہ كرام كا اجماع ہے؛ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا كہنا ہے: مشرق اور مغرب كے مابين قبلہ ہے، صرف بيت اللہ كے پاس نہيں…

اور عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں:

" آدمى نماز كس طرح غلط پڑھ سكتا ہے، حالانكہ مشرق و مغرب كے مابين قبلہ ہے، جب كہ وہ عمدا مشرق كو تلاش كرنے كى كوشش ہى نہ كرے "

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

( اس سے ہميں يہ معلوم ہوتا ہے كہ معاملہ ميں وسعت ہے، چنانچہ اگر ہم ديكھيں كہ كوئى شخص قبلہ كى سمت سے قليل سا انحراف كر كے نماز ادا كر رہا ہے تو يہ نقصان دہ نہيں، كيونكہ وہ جہت اور سمت كى طرف متجہ ہے اور يہى فرض ہے ).

ديكھيں: الشرح الممتع ( 2 / 273 ).

ليكن اگر كعبہ كى جہت سے انحراف زيادہ ہو؛ اس طرح كہ آپ كى نماز قبلہ كى جہت كے علاوہ كسى اور جانب ہو مثلا مشرق كى جانب اور قبلہ مغرب كى طرف ہے يا شمال ميں، چنانچہ جب انسان كے عمل كى بنا كسى ايسے شخص كے قول پر ہو جو نماز كے معاملے كو زيادہ اہتمام كے ساتھ جانتا ہے، اور اسے نماز كى عظيم قدر و منزلت كا علم ہے، اور نمازى كے گمان ميں تھا كہ وہ شخص اس سے زيادہ قبلہ كے رخ كے متعلق علم ركھتا ہے، تو پھر اس پر كوئى گناہ نہيں، اور اس كى نماز صحيح ہو گى، اگرچہ جس طرف رخ كر كے وہ نماز ادا كر رہا ہے وہ غلط بھى ہو.

كيونكہ انسان جب تلاش كى كوشش اور جدوجھد كرے تو اس نے اپنے ذمہ واجب كو ادا كر ديا، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اپنى استطاعت كے مطابق اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو التغابن ( 16 ).

مستقل فتوى كميٹى كا فتوى ہے:

" جب نمازى قبلہ كا رخ تلاش كرنے كى كوشش اور جدوجھد كر كے نماز ادا كرے، اور پھر بعد ميں اس كى تلاش كردہ سمت غلط نكلے تو اس كى نماز صحيح ہے "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 314 ).

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كا فتوى ہے:

" جب مؤمن شخص صحراء ميں يا كسى ايسے علاقے ميں جہاں قبلہ رخ مشتبہ ہو قبلہ رخ تلاش كرنے كى كوشش كرے اور جدوجھد كر كے اپنے اجتھاد كردہ رخ كى جانب رخ كر كے نماز ادا كرے، اور نماز كے بعد معلوم ہو كہ اس نے قبلہ رخ كے علاوہ كسى اور طرف رخ كر كے نماز ادا كر لى ہے، تو جب يہ ظاہر ہو جائے كہ اس كا آخرى اجتھاد پہلے سے زيادہ صحيح ہے تو دوسرے پر عمل كرےگا، اور اس كى پہلى نماز صحيح ہوگى، كيونكہ اس نے حق تلاش كرنے اور اجتھاد اور كوشش كے بعد ادا كى تھى "

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 10 / 421 ).

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android