0 / 0
4,70518/09/2012

طلاق كے بعد رجوع ميں بيوى كى رضامندى شرط نہيں

سوال: 75027

جب كوئى شخص عصبيت كى حالت ميں بيوى كو طلاق دے دے اور طلاق كے دو ہفتہ بعد بيوى سے رجوع كرنے جائے ليكن بيوى رجوع كو قبول نہ كرے كيونكہ خاوند بيويوں ميں عدل نہيں كرتا، اور اس نے بيوى كو ايك برس تك چھوڑے ركھا تو كيا وہ اس پر حرام ہے اور وہ مطلقہ شمار ہو گى يا نہيں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

جواب:

اول:

شديد غصہكى حالت ميں يعنى غصہ اتنا شديد ہو كہ وہ اپنے اوپر كنٹرول نہ كر سكے اور اسے پتہہى نہ چلے كہ وہ كيا كہہ رہا ہے تو يہ طلاق واقع نہيں ہوگى، ليكن اگر اس كا غصہ اسكى عقل پر اثرانداز نہ ہو بلكہ وہ ہوش و حواس ميں ہو اور جو كچھ كہہ رہا ہے اس كوجانتا ہو تو پھر يہ طلاق واقع ہو جائيگى.

غصہ كىحالت ميں دى گئى طلاق كى تفصيل سوال نمبر ( 45174 ) اور ( 22034 ) كے جواباتميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

دوم:

خاوند كواپنى بيوى سے رجوع كرنے كا حق حاصل ہے اور اس ميں بيوى كى رضامندى كا ہونا شاملنہيں اور نہ ہى رجوع كے ليے بيوى كى رضامندى شرط ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ عدت كےدوران رجوع كيا جائے، يعنى پہلى يا دوسرى طلاق كى عدت كے دوران؛ كيونكہ اللہسبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور طلاقيافتہ عورتيں تين حيض تك انتظار كريں، اور ان كے ليے حلال نہيں كہ اللہ نے ان كےرحم ميں جو پيدا كيا ہے اسے چھپا كر ركھيں، اگر وہ اللہ تعالى اور آخرت كے دن پرايمان ركھتى ہيں، اور ان كے خاوند انہيں واپس لانے كے زيادہ حقدار ہيں اگر وہاصلاح كا ارادہ ركھتے ہوں، اور ان عورتوں كے بھى اسى طرح حقوق ہيں جس طرح ان پر (خاوندوں كے ) ہيں، اور اللہ تعالى غالب و حكمت والا ہے البقرۃ ( 228 ).

اس آيتميں خاوند كے ليے ليے رجوع كى شروط كى تنبيہ كى گئى ہے وہ يہ ہيں:

1 ـ رجوع طلاق ميں ہو، اگر نكاح فسخ كياجائے تو اس ميں رجوع نہيں ہو سكتا، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور طلاقيافتہ عورتيں “

2 ـ يہ طلاق رجعى ہو يعنى پہلى يا دوسرىطلاق ہو، اللہ تعالى كا فرمان ہے:

طلاق دوبار ہے ” يعنى جس طلاق ميں رجوعہوسكتا ہے وہ دو بار ہے، اور اگر تيسرى طلاق ہو جائے تو پھر رجوع نہيں ہو سكتا، الايہ كہ وہ عورت كہيں اور نكاح رغبت كرے نكاح حلال نہيں، اور وہ دوسرا خاوند دخول كےبعد اسے اپنى مرضى سے طلاق دے دے يا پھر فوت ہو جائے تو يہ عورت اپنے پہلے خاوندكے ليے حلال ہو جائيگى.

3 ـ يہ رجوع عدت ميں كيا جائے، كيونكہاللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

ان عورتوںكے خاوند انہيں اس ميں واپس لانے كے زيادہ حقدار ہيں .

يعنى اسعدت ميں، اور اگر عدت گزر جائے اور خاوند اپنى بيوى سے رجوع كرنا چاہے تو وہ رجوعنہيں كر سكتا بلكہ اسے اس كے ساتھ نيا نكاح نئے مہر كے ساتھ پورى شروط ميں كرناہوگا.

4 ـ بيوى سے رجوع كرنے ميں خاوند كامقصد بيوى كو ضرر و تكليف اور اذيت دينا نہ ہو بلكہ يہ رجوع اصلاح كى نيت سے كياجائے.

كيونكہاللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اگر وہاصلاح كا ارادہ كريں البقرۃ ( 228).

اگر وہبيوى كو نقصان اور ضرر دينا چاہتا ہو تو بيوى كو چاہيے كہ وہ شرعى قاضى كے سامنےاسے ثابت كرے تا كہ وہ اس كے مطابق فيصلہ كر سكے.

يہ آيت اسكى واضح دليل ہے كہ اگر خاوند رجوع كرنا چاہتا ہے تو بيوى كو اس ميں كوئى اختيار حاصلنہيں، اور بيوى رجوع كو روك نہيں سكتى، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور انكے خاوند انہيں واپس لانے كے زيادہ حقدار ہيں .

چاہے بيوىاپنے خاوند كے گھر واپس نہيں بھى آتى اور خاوند بيوى سے رجوع كر كے اس پر دو گواہبنا ليتا ہے تو رجوع ہو جائيگا.

سوم:

جمہور اہلعلم كے ہاں جس عدت ميں خاوند رجوع كر سكتا ہے وہ تين حيض ہے، يعنى تيض حيض كے اندراندر وہ بيوى سے رجوع كر سكتا ہے، يا پھر اگر عورت حاملہ ہو تو وضع حمل سے قبلرجوع كر سكتا ہے.

اس بنا پرسوال ميں جو بيان ہوا ہے كہ خاوند نے طلاق كے دو ہفتہ بعد ہى رجوع كرنا چاہا يہعدت ميں رجوع كرنے كے موافق ہے، ليكن اگر بيوى حاملہ تھى اور رجوع كرنے سے قبل وضعحمل ہو گيا تو پھر نہيں.

چہارم:

خاوند كااپنى بيوى سے دور رہنا اور اسے چھوڑے ركھنے سے ہى طلاق واقع نہيں ہو جاتى، سوالنمبر ( 11681 ) كےجواب ميں بيوى سے خاوند كا لمبے عرصہ تك غائب رہنا طلاق شمار نہيں ہوتا بلكہ قاضىيا خاوند كے طلاق دينے پر ہى طلاق ہو گى تفصيل كے ساتھ بيان ہو چكا ہے اس كامطالعہ كريں.

پنجم:

ايك سےزائد بيوياں ركھنے والے شخص پر واجب ہے كہ وہ اپنى بيويوں كے بارہ ميں اللہ كاتقوى اختيار كرے، اور اللہ كى جانب سے واجب كردہ عدل و انصاف كرے، بيويوں كے مابينعدل و انصاف كے بارہ علم حاصل كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 10091 ) اور ( 13740 ) كےجوابات كا مطالعہ كريں.

ششم:

مرد كابغير كسى شرعى سبب كے اپنى بيوى سے بائيكاٹ كرنا اور اسے چھوڑنا حرام ہے، اگر يہبائيكاٹ بيوى كى اصلاح كے ليے ہو تا كہ وہ ترك كردہ واجب پر عمل كرے، يا پھر كردہگناہ سے باز آ جائے تو اس سے بائيكاٹ كرنا جائز ہے.

بلاشك وشبہ آدمى كا اپنى بيوى كو اس عرصہ ( ايك برس ) تك چھوڑے ركھنا مشكل كو زيادہ كرنےكى دليل ہے، اور وہ اس مشكل كو حل نہيں كر سكتے، اس حالت ميں اللہ سبحانہ و تعالىنے ايك عورت كے خاندان سے اور ايك مرد كے خاندان سے منصف بھيجنے كا حكم ديا ہے، تاكہ وہ ان دونوں كے معاملہ كو ديكھ كر جس ميں مصلحت ديكھيں اس كے مطابق فيصلہ كريںاور خاوند اور بيوى سے ضرر و نقصان كو ختم كريں.

اللہسبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگرتم ان دونوں كے مابين جھگڑا ہونے كا خدشہ ركھو تو ايك شخص مرد كے خاندان سے اورايك شخص عورت كے خاندان سے بطور منصف بھيجو اگر وہ اصلاح چاہيں گے تو اللہ اندونوں ميں موافقت پيدا كر ديگا، يقينا اللہ تعالى عليم و خبير ہے النساء ( 35 ).

خاوند كوعلم ہونا چاہيے كہ اسے دو ميں ايك كا حكم ہے:

يا تو وہاپنى بيوى كو اچھے طريقہ سے اپنى عفت و عصمت ميں ركھے، اور اس سے بہتر طريقہ سےمعاشرت كرے، يا پھر وہ اسے اچھے طريقہ اور احسان كے ساتھ طلاق دے كر اس كے پورےحقوق دے كر اسے فارغ كرے، اور اس پر ظلم مت كرے، اللہ تعالى كا فرمان ہے:

يا تواچھے طريقہ سے روك لينا ہے، يا پھر اچھے طريقہ سے چھوڑ دينا ہے البقرۃ( 229 ).

مزيدتفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 45600 ) اور ( 11971 ) كےجوابات كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android