0 / 0

ضرورتمند والد كا بيٹے كى كيفے والى كمائى لينے كا حكم

سوال: 82761

ميرا بھائى ايك كنٹين اور كيفے كا مالك ہے جہاں تاش كھيلے جاتے ہيں اور حقہ پيا جاتا ہے، ميرے والدين اس وقت بہت زيادہ ضرورتمند ہيں كيا وہ اس كى اس كمائى ميں سے مال لے سكتے ہيں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

باپ كے ليے بيٹے كى كمائى اور مال سے رقم لينى جائز ہے، اور اسے جتنى بھى ضرورت ہو وہ لے سكتا ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ اس سے بيٹے كو نقصان نہ ہوتا ہو.

كيونكہ مسند احمد ميں عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ اور ابن حبان اور ابن ماجہ ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كى:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرا مال بھى ہے اور ميرى اولاد بھى، اور ميرا والد ميرا مال لينا چاہتا ہے.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” تو اور تيرا مال تيرے والد كا ہى ہے ”

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2291 ) صحيح ابن حبان ( 2 / 142 ) مسند احمد حديث نمبر ( 6902 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

فقھاء كرام نے اس كے ليے كچھ شروط بيان كى ہيں:

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” والد كے ليے جائز ہے كہ وہ اپنے بيٹے كا مال جتنا مال چاہے لے اور اسے اپنى ملكيت بنا لے، والد كو اس كى ضرورت ہو يا نہ ہو، چاہے بيٹا چھوٹا ہو يا بڑا والد اس كا مال دو شرطوں كے ساتھ لے سكتا ہے:

پہلى شرط:

وہ بيٹے كو تباہ نہ كردے، اور اسے نقصان نہ دے، اور وہ ايسى چيز نہ لے جو بيٹے كى ضرورت كے ساتھ معلق ہو.

دوسرى شرط:

وہ ايك بيٹے سے مال لے ليكر دوسرے كو نہ دے، امام احمد نے يہى بيان كيا ہے، يہ اس ليے كہ كسى ايك بيٹے كو اپنے مال ميں سے عطيہ دينے ميں مخصوص كر لينا جائز نہيں، تو پھر كسى ايك بيٹے كا مال ليكر دوسرے بيٹے كو خاص كر دينا تو بالاولى ممنوع ہوگا.

بيان كيا جاتا ہے كہ مسروق رحمہ اللہ نے اپنى بيٹى كى دس ہزار مہر ميں شادى كى اور وہ خود ركھ ليا، اور اسے اللہ كى راہ ميں خرچ كر ديا اور خاوند كو كہنے لگے: اپنى بيوى كو تيار كرو”

اور امام ابو حنيفہ، امام مالك، امام شافعى رحمہم اللہ كہتے ہيں: باپ كو اپنے بيٹے كا مال لينے كا صرف اتنا ہى حق ہے جتنى اسے ضرورت ہے؛ اس سے زيادہ نہيں لے سكتا، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” يقينا تمہارے خون، تمہارے اموال، تم پر اسى طرح حرام ہيں جس طرح تمہارا يہ دن تمہارے اس حرمت والے مہينے ميں حرمت والا ہے ”

متفق عليہ انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 5 / 395 ).

جمہور علماء نے باپ كو ضرورت كى شرط لگائى اس كى تائيد درج ذيل روايت سے بھى ہوتى ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” يقينا تمہارى اولاد تمہيں اللہ كى طرف سے ہبہ كردہ ہے وہ جسے چاہے لڑكياں ہبہ كرتا ہے، اور جسے چاہے لڑكے ديتا ہبہ كرتا ہے تو جب تمہيں اس كى ضرورت پڑے تو وہ تمہارا مال ہيں ”

مستدرك الحاكم ( 2 / 284 ) سنن البيھقى ( 7 / 480 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 2564 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

تو جب باپ كو مال كى ضرورت ہو تو وہ اپنے بيٹے كے مال سے لے سكتا ہے، وہ اس مال كو اپنے اور اپنى عيالدارى ميں رہنے پر خرچ كر سكتا ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ بيٹے كو ضرر اور نقصان نہ دے، اور وہ ايسى چيز نہ لے جو اس كى ضرورت كے متعلقہ ہو، مثلا اس كى وہ گاڑى جو اپنے آنے جانے ميں استعمال كرتا ہو.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر (9594 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

حقہ پينا حرام ہے، اس حقہ سے حاصل كردہ كمائى بھى حرام ہے، ليكن اگر اس كيفے ميں اگر كھانے پينے والى مباح اشياء مثلا چائے، قہوہ وغيرہ بھى ہوں تو آپ كے بھائى كے كيفے سے حاصل ہونے والى آمدنى مختلط مال شمار گى، جس ميں حلال اور حرام دونوں جمع ہيں، اور جو مال اس طرح كا ہو تو دوسرے كے ليے اس مال سے كھانا حلال ہے، اور وہ اس كے مالك سے تجارت اور لين دين كر سكتا ہے، اور اس كا ہديہ بھى قبول كر سكتا ہے، اگرچہ ورع اور تقوى يہى ہے كہ اس كے ساتھ لين دين نہ كيا جائے، اور اس كا مال نہ ليا جائے، ليكن جب باپ اس مال كا ضرورتمند ہو تو اسے لينے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس كے ساتھ ساتھ بيٹے كو نصيحت كرنى چاہيے كہ وہ اللہ كا تقوى اختيار كرے، اور حرام لين دين اور معاملات ترك كر دے.

دسوقى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” آپ يہ جان ليں كہ جس شخص كا زيادہ مال حلال كا ہو، اور حرام كا مال كم ہو تو اس كے ساتھ لين دين اور معاملات كرنے اور اس كے ساتھ قرض اور تجارت كا معاملہ كرنا اور اس كے مال سے كھانا جائز ہے اور معتمد بھى يہى ہے.

ليكن جس شخص كا اكثر مال حرام اور حلال كم ہو تو ابن قاسم كا مسلك ہے كہ اس كے ساتھ لين دين اور معاملات كرنے، اور اس كے مال سے كھانا مكروہ ہے، اور معتمد بھى يہى ہے.

اور جس شخص كا سارا مال حرام ہو، اس سے مراد وہ شخص ہى جس كا ذمہ سارے كا سارا حرام ميں ڈوبا ہوا ہو تو ايسے شخص كے ساتھ لين دين، اور معاملات كرنے اور قرض و تجارت كا معاملہ كرنا ممنوع ہے، اور اسے مالى تصرف سے روك ديا جائيگا ” انتہى

ديكھيں: حاشيۃ الدسوقى ( 3 / 277 ) مختصرا

مزيد تفصيل كے آپ سوال نمبر (45018 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اور تاش كھيلنے كا حكم معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 12567 ) اور (321 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android