0 / 0

لڑكى كے باپ سے رشتہ طلب كيا اور لڑكى كا والد فوت ہونے پر چچا اتفاق ميں تبديلى كرنا چاہتا ہے

سوال: 95527

ميں انتيس برس كا جوان ہوں اڑھائى برس قبل ميں نے اپنے ساتھ ملازمت كرنے والى لڑكى سے منگنى كى اور الحمد للہ لڑكى كے والد سے اتفاق كرنے كے بعد منگنى ہو گئى، اس دوران ہمارے درميان طبعى قسم كى مشكلات تھيں، اور لڑكى كے والد كے ساتھ ميرے بہت اچھے تعلقات تھے، كہ جنورى ميں لڑكى كا والد فوت ہو گيا، اس وقت سے لڑكى كے چچا ہمارے معاملہ ميں دخل دے رہے ہيں، اور انہوں نے اس اتفاق كو كئى طرح سے تبديل كرنے كى كوشش كى، اور بالآخر اس كےايك چچا نے ميرے گھر آ كر منگنى كى انگوٹھى واپس كر دى.

يہ علم ميں رہے كہ ہم دونوں ہى ايك دوسرے كو چاہتے ہيں، اور كئى حكيم قسم كے افراد نے بھى اسے حل كرنے كى كوشش كى ہے، اور دونوں خاندانوں ميں سے افراد نے رجوع كى رغبت كا اظہار بھى كيا ہے، ليكن لڑكى كے چچا شادى كے ليے عجيب و غريب شروط ركھ رہے ہيں، جو لڑكى كے متوفى والد كے ساتھ اتفاق سے بالكل مختلف ہيں.

برائے مہربانى يہ بتائيں كہ اس طرح كى حالت ميں دينى حكم كيا ہے، كيا لڑكى كے ماموں كے ليے اس كى شادى كرنا جائز ہے، اور اس تنگى كى حالت ميں حل كيا ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

آپ كے سوال كا جواب دينے سے قبل ايك مسئلہ پر متنبہ كرنا ضرورى ہے كہ: مرد و عورت كے اختلاط والى جگہ پر ملازمت كرنى دونوں يعنى مرد اور عورت كے ليے جائز نہيں ہے كيونكہ يہ ايسے فساد كى جڑ ہے جس كے معاشرے پرغلط اثرات كسى پر مخفى نہيں ہيں، اختلاط كى حرمت كے دلائل ہم سوال نمبر (1200 ) كے جواب ميں بيان كر چكے ہيں.

جو شخص بھى كسى اختلاط والى جگہ پر ملازمت كرنے ميں مبتلا ہو ـ اگر وہ ملازمت ترك كرنے كى استطاعت نہ ركھے ـ تو اسے چاہيے كہ وہ عورتوں كو ديكھنے اور ان سے خلوت كرنے اور بغير كسى ضرورت اور كام كى بات كے بات چيت نہ كرے.

اس حرام اختلاط كى خرابيوں ميں يہ شامل ہے جو اجنبى مرد اور عورت كے مابين پيدا ہوتا ہے جسے لوگ كام كى ساتھ يعنى ملازمت كى جگہ ملازمت كرنے والى سہيلى اور دوست كا نام ديتے ہيں، اس ميں حرام نظر بھى پڑتى ہے، اور حرام بات چيت بھى ہوتى ہے، اور پھرخط و كتاب كا سلسلہ بھى ہوتا ہے، جس كے باعث اكثر حرام تعلقات قائم ہوتے ہيں.

دوم:

آپ كے سوال كے جواب كے متعلق عرض ہے كہ: آپ كے سوال سے يہى لگتا ہے كہ آپ نے ابھى عورت كے ساتھ عقد نكاح نہيں كيا؛ اس ليے ابھى آپ اس كے ليے ايك اجنبى مرد كى حثييت ركھتے ہيں، لہذا آپ كے ليے اس كے ساتھ خلوت كرنا اور كثرت سے بات چيت كرنا جائز نہيں، جب تك آپ كاعقد نكاح نہيں ہو جاتا.

اور پھر عورت كا عقد نكاح اس وقت تك صحيح نہيں جب تك اس كا ولى وہاں حاضر نہ ہو، اور اس ليے كہ لڑكى كا والد فوت ہو چكا ہے، يہ ولايت منتقل ہو كر لڑكى كے داد كو مل چكى ہے، اور اگر دادا نہيں ہے تو لڑكى كے بھائى اس كے ولى ہونگے، اور اگر لڑكى كے بھائى بھى نہيں تو پھر يہ ولايت منتقل ہو كر لڑكى كے چچا كو مل جائيگى.

اور ولى كو حق حاصل نہيں كہ وہ بغير كسى شرعى اور مقبول عذر كے لڑكى كو شادى كرنے سے منع كرے، اور اگر وہ اسے شادى كرنے سے منع كرتے ہيں تو يہ ولايت منتقل ہو كر بعد والے ولى كو مل جائيگى، اور پھر شرعى قاضى كى طرف منتقل ہو جائيگى، يا پھر اس كے قائم مقام كو، اس پر متنبہ رہيں كہ لڑكى كے ماموں اس كے ولى نہيں بن سكتے.

اولياء كى ترتيب ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 2127 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” جب كوئى عورت كسى مرد سے شادى كرنے پر راضى ہو اور وہ اس كا كفؤ بھى ہو تو اس كے ولى مثلا بھائى پھر چچا پر واجب ہے كہ وہ اس كى شادى كر دے، اور اگر وہ اسے روكتا اور شادى سے منع كرتا ہے تو دور كا ولى اس كى شادى كريگا، يا پھر اس كى اجازت كے بغير حاكم شادى كريگا، اس ميں علماء كا اتفاق ہے.

لہذا ولى كو كوئى حق حاصل نہيں كہ وہ عورت كو كسى ايسے شخص كے ساتھ شادى كرنے پر مجبور كرے جس پر وہ راضى نہيں، اور جس سے وہ نكاح كرنا پسند كرتى ہے اس سے شادى كرنے سے ولى اسے مت روكے جبكہ وہ كفؤ ہو اس پر آئمہ كا اتفاق ہے.

بلكہ اسے تو اہل جاہليت روكتے اور منع كرتے تھے، اور وہ ظالم قسم كے لوگ ايسا كرتے ہيں جو اپنى عورتوں كى شادى ايسے افراد سے كرتے ہيں جنہيں وہ اپنى غرض كے ليے اختيار كرتے ہيں، اور اس ميں عورت كوئى مصلحت نہيں ہوتى، اور وہ اسے ايسا كرنے پر مجبور كرتے ہيں.

يا پھر وہ اسے ذليل كرتے ہيں حتى كہ وہ اس سے شادى كر لے، اور عداوت كى بنا پر وہ كفؤ اور مناسب رشتہ سے شادى كرنے پر منع كرتے ہيں، يا كسى اور غرض كى بنا پر اس كى شادى نہيں كرتے، يہ سب جاہليت كے عمل اور ظلم و دشمنى اور عدوان ہے.

اور اسے اللہ عزوجل اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حرام قرار ديا ہے، اور مسلمان اس كے حرام ہونے پر متفق ہيں، اللہ عزوجل نے عورتوں كے اولياء پر واجب كيا ہے كہ وہ عورت كى مصلحت كو مدنظر ركھيں، نہ كہ اپنى خواہش كو، جس طرح سارے اولياء اور وكيل جو كسى دوسرے كے ليے تصرف كرتے ہيں.

كيونكہ اس ميں تو اس كى مصلحت كو مدنظر ركھا جاتا ہے جس كے ليے وہ كام كيا جا رہا ہے نہ كہ اپنى خواہش كو، كيونكہ يہ تو ايك امانت ہے جسے اللہ نے اس كے اہل لوگوں كے سپرد كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:

يقينا اللہ تعالى تمہيں حكم ديتا ہے كہ تم امانتيں ان كے اہل افراد كے سپرد كر دو، اور جب تم لوگوں ميں فيصلہ كرو تو عدل و انصاف كے ساتھ فيصلہ كرو .

يہ واجب نصيحت ميں شامل ہوتى ہے، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” دين تو خير خواہى كا نام ہے، دين خير خواہى كا نام ہے دين خير خواہى كا نام ہے.

صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كس كے ليے ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” اللہ كے ليے، اور اس كى كتاب كے ليے، اور اس كے رسول كے ليے، اور مسلمان اماموں كے ليے، اور عام مسلمانوں كے ليے “

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 52 – 53 ).

اور ہم آپ كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ آپ لڑكى كے گھر والوں كى موافقت كے بغير يہ شادى نہ كريں، انہيں راضى كرنا اور ان كى محبت و مودت حاصل كرنا ضرورى ہے، تا كہ قطع رحمى كا باعث نہ بنے، كيونكہ ہو سكتا ہے اس كے بعد ہميشہ كے ليے ان سے تعلق ہى نہ بنايا جائے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android