0 / 0

آدمى كا اپنى بيٹى كا بوسہ لينا اور اپنے ساتھ لگانا

سوال: 159539

ميں يہ دريافت كرنا چاہتى ہوں كہ آيا باپ كے ليے اپنى تئيس برس كى بيٹى كو اپنے ساتھ لگانا جائز ہے، ميرى مراد بستر پر اپنے ساتھ لگانا نہيں بلكہ معانقہ كے ليے اپنے ساتھ لگانا ہے.

ميں قسم اٹھا كر كہتى ہوں كہ مجھے نہيں ياد كہ ميرے والد صاحب نے مجھے اپنے ساتھ لگايا ہو اور ميرى نفسياتى حالت كو اللہ كے علاوہ اور كوئى جانتا ہو.

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

جواب :

الحمدللہ:

اول:

بيٹى پر شفقت ورحمدلى اور نرمى كرتے ہوئے اپنى بيٹى كو والد كا اپنے ساتھ لگانا اور اس كا سر يارخسار كا بوسہ لينا جائز ہے، چاہے بيٹى بالغہ اور بڑى عمر كى ہو، ليكن اس ميں شرطيہ ہے كہ فتنہ يا شہوت كا ڈر نہ ہو تو ايسا كرنا جائز ہے اور اس ميں مونہہ كا بوسہلينا جائز نہيں يہ مستثنى ہے كيونكہ يہ صرف خاوند اور بيوى كے ساتھ مخصوص ہے، اوراس ليے بھى كہ اس سے غالبا شہوت ميں حركت پيدا ہوتى ہے.

امام احمد رحمہاللہ سے دريافت كيا گيا:

آيا مرد اپنىمحرم عورت كا بوسہ لے سكتا ہے يا نہيں ؟

انہوں نے جوابديا:

” جب سفر سےواپس آئے اور اسے اپنے نفس كا ( شہوت ) كا ڈر نہ ہو تو.

ابن مفلح كہتےہيں:

” ليكن وہايسا مونہہ پر كبھى مت كرے ( يعنى مونہہ كا بوسہ مت لے ) صرف پيشانى يا سر كا بوسہلے ” انتہى

ديكھيں: الآدابالشرعيۃ ( 2 / 256 ).

اور الاقناع ميںدرج ہے:

” اگر كسىكو اپنے نفس كا خطرہ نہ ہو تو سفر سے واپس آنے والے شخص كے ليے اپنى محرم عورتوںكا بوسہ لينے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن وہ ايسا مونہہ پر مت كرے، بلكہ پيشانى اورسر كا بوسہ لے ” انتہى

ديكھيں: الاقناع( 3/ 156 ).

اورالموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

” فقھاءكرام كا اتفاق ہے كہ شہوت كے ساتھكسى مردكے ليے دوسرے مرد كا مونہہ يا ہاتھ وغيرہ چومنا جائز نہيں، اور اسى طرح عورت كاعورت كو چومنا اور معانقہ اور بدن سے بدن لگانا وغيرہ جائز نہيں ہے.

ليكن اگر مونہہكے علاوہ ہو اور عزت اور حسن سلوك يا پھر ملاقات اور الوداع كرتے وقت شفقت ورحمدلى كے ساتھ ہو تو پھر اس ميں كوئى حرج نہيں ” انتہى

ديكھيں:الموسوعۃ الفقھيۃ ( 13 / 130 ).

شيخ ابن باز رحمہاللہ سے دريافت كيا گيا:

اگر كسى شخص كىبيٹى بلوغت كى عمر سے تجاوز كر جائے اور بڑى ہو جائے چاہے شادى شدہ ہو يا غير شادىشدہ تو كيا اس كا ہاتھ اور مونہہ وغيرہ چومنا جائز ہے يا نہيں ؟ اور اگر ان جگہوں كابوسہ ليا جائے تو كيا حكم ہوگا ؟

شيخ رحمہ اللہ كاجواب تھا:

” مرد كےليے بغير شہوت اپنى چھوٹى يا بڑى عمر كى بيٹى كا بوسہ لينے ميں كوئى حرج نہيں، اوراگر بيٹى بڑى ہے تو پھر رخسار كا بھى بوسہ لے سكتا ہے كيونكہ ابو بكر رضى اللہتعالى عنہ سے ثابت ہے كہ انہوں نے اپنى بيٹى عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ كے رخسار كابوسہ ليا تھا.

اور اس ليے بھىكہ مونہہ كا بوسہ ( يعنى ہونٹوں پر ہونٹ ركھ كر ) لينے سے شہوت ميں حركت ہوتى ہے،اس ليے اسے ترك كرنا ہى بہتر اور زيادہ احتياط كا باعث ہے، اور اسى طرح بيٹى بھىبغير شہوت كے اپنے باپ كے ناك يا سر كا بوسہ لے سكتى ہے.

ليكن شہوت كےساتھ ايسا كرنا قطعى طور پر سب كے ليے حرام ہے، كيونكہ اس سے فتنہ پيدا ہوگا، اورفحاشى كا سد باب كرنے كے ليے بھى ايسا كرنا ضرورى ہے “

اللہ تعالى ہىتوفيق دينے والا ہے.

ديكھيں: فتاوىاسلاميۃ ( 3 / 78 – 79 ).

دوم:

بچپن اور چھوٹىعمر ميں بيٹے اور بيٹى كا بوسہ لينا اور انہيں اپنے ساتھ لگانا يہ اس مہربانى اوررحمدلى و شفقت ميں شامل ہوتا ہے جو اپنى اولاد كے ساتھ ہونى چاہيے، اور انہيں اسسے محروم نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ يہ تو وہ رحمت ہے جو اللہ سبحانہ و تعالى نےاپنے بندوں كے دلوں ميں ركھى ہے، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى تو اپنى رحمت بھىاپنے ان بندوں پر ہى كرتا ہے جو دوسروں پر رحم كرتے ہيں.

لہذا ہم ماؤں اورباپوں كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اپنى اولاد كو اس محبت و الفت اور رحمت سے محروم متركھيں كيونكہ يہ تو ايك اساسى طور پر نفسياتى ضرورت ہے، اور خاص كر چھوٹے بچوں كےليے، جيسا كہ دور حاضر ميں بھى اور پہلے قديم دور ميں بھى سرچ كے ساتھ ثابت ہو چكاہے.

اور پھر صحيحبخارى اور صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتےہيں كہ:

” ميں دن كےوقت رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ نكلا نہ تو انہوں نے مجھ سے بات كى اورنہ ہى ميں نے آپ سے كوئى بات كى حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بنو قينقاعكے بازار ميں آئے پھر وہاں سے فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا كے گھر آئے اور فرمايا:

كيا يہاں بچہ ہےيہاں بچہ ہے ؟ ( يعنى حسن رضى اللہ عنہ ) ہم نے خيال كيا كہ اس كى ماں نے اسے روكليا ہے، كيونكہ وہ اسے غسل دے رہى ہے اور اسے لونگ اور خوشبو كا ہار پہنا رہى ہے،تو كچھ ہى دير بعد وہ دوڑتا ہوا آيا اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ آ كرچمٹ گيا اور نبى كريم صلى اللہ وسلم نے بھى اسے اپنے ساتھ چمٹا ليا اور فرمايا:

” اے اللہميں اس سے محبت كرتا ہوں تو بھى اس سے محبت كر، اور جو اس سے محبت كرے اس سے بھىمحبت كر “

صحيح بخارى حديثنمبر ( 2122 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2421 ) يہ الفاظ مسلمكے ہيں.

اور صحيح بخارىميں انس رضى بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:

” ہم نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ ابراہيم كى دايہ جو انہيں پلا رہى تھى كے خاوندابو سيف القين كے پاس گئے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابراہيم كو پكڑ كراسے چوما … ”

صحيح بخارى حديثنمبر ( 1303 ).

يہ صحابى رضىاللہ تعالى عنہ لوہار تھے، اور ابراہيم رضى اللہ تعالى عنہ ان كى بيوى كا دودھپيتے تھے، يعنى رضاعى باپ ہيں، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كے پاس اس ليےآئے كہ اپنے بچے كو مل سكيں اور اسے سلام كريں اور اس سے معانقہ كريں اور اس كابوسہ ليں.

اور صحيح بخارىميں ہى ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:

” رسول كريمصلى اللہ عليہ وسلم نے حسن بن على رضى اللہ تعالى عنہما كا بوسہ ليا اور اس وقت آپكے پاس اقرع بن حابس تميمى بھى بيٹھے ہوئے تھے تو اقرع كہنے لگا:

ميرے دس بچے ہيںميں نے تو ان ميں سے كبھى كسى كو بھى نہيں چوما.

تو رسول كريم صلىاللہ عليہ وسلم نے اس كى طرف ديكھ كر فرمايا:

” جو رحمنہيں كرتا اس پر رحم نہيں كيا جاتا “

صحيح بخارى حديثنمبر ( 5997 ).

اور صحيح بخارىميں ہى روايت ہے كہ:

براء رضى اللہتعالى عنہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ ہجرت كے بعد ان كے گھر گئے تو ابوبكر رضى اللہ تعالى عنہ كى بيٹى عائشہ ليٹى ہوئى تھى اور انہيں بخار تھا تو عائشہرضى اللہ تعالى عنہا كے باپ نے عائشہ كا رخسار چوما اور كہنے لگے: ميرى بيٹى تمكيسى ہو ؟ “

صحيح بخارى حديثنمبر ( 3704 ).

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android