اول:
نیبولائزر (Nebuliser) ایک آلہ ہے جو سانس کے ذریعے سیال دوا کو باریک ذروں میں تبدیل کر کے براہ راست پھیپھڑوں تک منتقل کرتا ہے، ان ذروں کو منہ یا ناک کے ذریعے پھیپھڑوں تک لے جایا جاتا ہے۔
یہ آلہ سینے کی موسمی الرجی اور نظام تنفس میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں وغیرہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔
دوا کے یہ باریک ذرے روزے دار کا روزہ توڑ دیتے ہیں، اس لیے یہ آلہ رمضان میں دن کے وقت استعمال نہیں کرنا چاہیے ، تاہم اشد ضرورت ہو تو استعمال کرے ، اور اگر استعمال کرے گا تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (78459) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
محض گمان کی بنا پر فتوی نہیں دینا چاہیے، اس لیے لیڈی ڈاکٹر کو چاہیے تھا کہ نیبولائزر (Nebuliser) کے بارے میں یہ کہنے سے پہلے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، تاکید اور اطمینان کر لیتی، یا مریض کو یہ کہہ دیتی کہ اس بارے میں آپ اہل علم سے رجوع کریں۔
اس لیے لیڈی ڈاکٹر پر لازمی ہے کہ وہ اللہ تعالی سے معافی مانگے اور مریض کو اپنی غلطی سے خبردار کر دے، اور خاتون نے یہ اچھا کیا کہ مریض سے رابطہ کرنے کی کوشش کی اور پھر اسے پیغام بھی بھیج دیا، تاہم ان پر کوئی کفارہ نہیں ہے، نہ ہی ان پر کوئی چیز لازم ہے، نیز مریض پر بھی صرف قضا ہی ہو گی، وہ بھی اس صورت میں کہ مریض نے اس آلے کو رمضان میں دن کے وقت استعمال کیا ہو۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایک سوال پوچھا گیا:
"اگر کوئی انسان کسی کو کوئی فتوی دے دے، پھر فتوی دینے والا یہ شخص چلا جائے، پھر عرصے بعد اس مفتی نے اہل علم کے اقوال دیکھے تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا فتوی غلط تھا، تو ایسے میں انسان کیا کرے؟ کیا اس پر گناہ ہو گا؟ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اس پر روشنی ڈالیں۔"
تو شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ:
"اگر اس کا پہلا فتوی اجتہاد کی بنیاد پر تھا اور اس میں اجتہاد کے خواص بھی پائے جاتے تھے ، لیکن پھر دوبارہ بحث و تمحیص کے بعد معلوم ہوا کہ اس کا پہلا اجتہاد غلط تھا، تو اس پر کچھ نہیں ہے۔
بڑے بڑے اہل علم اس طرح کیا کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان سے ایک ہی مسئلے میں متعدد اقوال منقول ہیں۔
لیکن اگر پہلا فتوی لاعلمی اور اجتہاد کے بغیر ہی دیا تھا ، اسے گمان تھا کہ مسئلہ ایسے ہی ہو گا، تو گمان کے بارے میں یہ ہے کہ کچھ گمان گناہ بن جاتے ہیں، ایسی صورت میں اس کے لیے گمان اور اندازے کی بنا پر فتوی دینا ہی حرام ہے؛ کیونکہ اگر اس نے اس طرح کی کوئی حرکت کی تو وہ اللہ تعالی پر جہالت میں باتیں گھڑ رہا ہے، اور اللہ تعالی پر جہالت میں باتیں گھڑنا کبیرہ ترین گناہ ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
ترجمہ: آپ فرما دیجیے کہ البتہ میرے رب نے حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو اعلانیہ ہیں (١) اور جو پوشیدہ ہیں اور ہر گناہ کی بات کواور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو (٢) اور اس بات کو کہ اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات لگا دو جس کو تم جانتے نہیں۔ [الأعراف: 33]
اب اس مفتی پر لازم ہے کہ جس کو اس نے فتوی دیا تھا اسے تلاش کرے اور بتلائے کہ اس کا فتوی غلط تھا، اگر وہ اس طرح کر لیتا ہے تو امید ہے کہ اللہ تعالی اس کی توبہ قبول کر لے۔
بغیر علم کے فتوی دینا انتہائی سنگین قسم کا جرم ہے؛ کیونکہ اس سے صرف ایک فتوی طلب کرنے والا شخص ہی گمراہ نہیں ہو گا، بلکہ ہو سکتا ہے کہ فتوی لینے والا شخص اسے لوگوں میں پھیلا دے، اور اس طرح بہت سے لوگ گمراہ ہو جائیں، لہذا بغیر علم کے فتوی غلط اور جرم ہے" ختم شد
فتاوی نور علی الدرب
سوم:
اگر کسی مریض کو اس لیڈی ڈاکٹر نے یہ آلہ تجویز کر دیا اور اس مریض کو یہ آلہ استعمال کرنے کی دن میں بھی ضرورت پڑ سکتی ہے، لیکن تجویز کرتے ہوئے اسے روزہ ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی تو ظاہر یہی لگتا ہے کہ ان پر کوئی گناہ نہیں ہے؛ کیونکہ ایسے مریض کو اپنی بیماری کی وجہ سے روزہ توڑنا ہی پڑے گا، اور وہ شخص اپنی بیماری کی وجہ سے معذور بھی ہے۔ تاہم مریض کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اہل علم سے اس آلے کے استعمال سے متعلق پوچھ لے کہ کیا اس سے روزہ ٹوٹتا ہے یا نہیں، اگر وہ پوچھنے میں کوتاہی کرتا ہے تو یہ کوتاہی مریض کی ہے معالج کی نہیں ۔
اور اگر یہ آلہ کسی ایسے مریض کے لیے تجویز کیا ہے جسے یہ آلہ دن میں استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ڈاکٹر نے اسے اس کے بارے میں خبردار نہیں کیا ، تو اگر معالج کو علم ہو جائے کہ وہ اسے دن میں بھی استعمال کرے گا لیکن پھر بھی اسے ڈاکٹر نے خبردار نہیں کیا تو اس پر اسے گناہ ہو گا؛ کیونکہ ڈاکٹر بلا عذر کے روزہ خراب کرنے کا باعث بنی ہے۔
لیکن اگر ڈاکٹر کو علم نہیں ہوا کہ مریض اسے دن میں استعمال کرے گا یا رات میں ، تو ایسی صورت میں ڈاکٹر پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔
اور یہ بات ضروری ہے کہ تمام معالجین کو ایسے تمام کے تمام مسائل ازبر ہونے چاہییں جن کا تعلق عبادات، طہارت، نماز، روزہ وغیرہ سے ہو، تا کہ مریضوں کی عبادت لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے خراب نہ کر دیں، اور اگرا نہیں کوئی شک گزرے یا مسئلہ پیش آئے تو مریضوں کو اہل علم سے رجوع کرنے کی تلقین کریں۔
واللہ اعلم