0 / 0

شرعی اور بدعتی وسیلہ

سوال: 3297

میں وسیلے کے متعلق سوال پوچھنا چاہتا ہوں، میں یہ جانتا ہوں کہ قبروں سے یا مردوں سے وسیلے مانگنے والا غیر اللہ کو پکارتا ہے اور یہ صحیح نہیں ہے۔ لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ: اس میں کیا غلط بات ہے کہ میں کسی زندہ نیک آدمی سے دعا کی درخواست کروں؟ اور اس میں کیا غلط بات ہے کہ میں اسی نیک آدمی سے مرنے کے بعد دعا کی درخواست کروں؟ میں یہ بات کرنے والے بھائی کو کیسے جواب دوں؟ جائز وسیلہ کیا ہے؟ اور ناجائز وسیلہ کون سا ہوتا ہے؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

عربی لغت میں وسیلہ؛ قرب حاصل کرنے کو کہتے ہیں، اسی معنی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ ترجمہ: وہ اپنے رب کا قرب تلاش کرتے ہیں۔ [الإسراء: 57] یعنی وہ ایسی چیز کی تلاش میں ہوتے ہیں جو انہیں اللہ کے قریب کر دے۔

وسیلے کی دو قسمیں ہیں: شرعی وسیلہ اور غیر شرعی وسیلہ

شرعی وسیلہ:

یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کا قرب ایسے اعمال کے ذریعے تلاش کرے جنہیں اللہ تعالی پسند کرتا ہے اور ان سے محبت فرماتا ہے، مثلاً: فرض یا مستحب عبادات چاہے ان کا تعلق اقوال سے ہو یا افعال سے، یا عقائد سے، اس کی بھی مزید اقسام ہیں:

1- اللہ تعالی کے اسما و صفات کو وسیلہ بنائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ترجمہ: اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، سو اسے ان کے ساتھ پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارے میں سیدھے راستے سے ہٹتے ہیں، انہیں جلد ہی اس کا بدلہ دیا جائے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔ [الأعراف: 180] اس لیے انسان اللہ سے کچھ بھی مانگتے ہوئے اللہ تعالی کا اس چیز سے متعلقہ نام پہلے ذکر کرے؛ مثلاً: اللہ تعالی سے رحمت مانگنی ہو تو اللہ کا اسم مبارک "الرحمن" اپنی دعا کے آغاز میں لے، اسی طرح مغفرت طلب کرنی ہو تو اللہ تعالی کا اسم مبارک "الغفور" لے، اسی طرح دیگر کسی بھی ضرورت کے مطابق اللہ کا نام ذکر کرے۔

2- اللہ تعالی پر ایمان اور عقیدہ توحید کو وسیلہ بنائیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ 

ترجمہ: اے ہمارے پالنے والے معبود! ہم تیری اتاری ہوئی وحی پر ایمان لائے اور ہم نے تیرے رسول کی اتباع کی، پس [ہمارے ان اعمال کے طفیل]تو ہمیں گواہوں میں لکھ لے۔ [آل عمران: 53]

3- نیک اعمال کو وسیلہ بنائیں، وہ اس طرح کہ جن اعمال کے متعلق انسان کو اللہ کے ہاں بہت زیادہ امید ہو ایسے بہترین اور اعلی قسم کے اعمال کا واسطہ دے کر اللہ سے مانگے، مثلاً: نماز، روزہ، قرآن کی تلاوت، حرام کاموں سے دور رہنا وغیرہ۔ اس بارے میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک روایت ہے کہ جس میں غار میں داخل ہونے والے تین لوگوں کا واقعہ ہے کہ وہ جب غار میں داخل ہوئے تو ایک بہت بڑا اور وزنی پتھر غار کے منہ پر آ گرا اور راستہ بند ہو گیا، تو انہوں نے اپنے اپنے اعلی ترین اعمال کے طفیل دعا مانگی تھی۔ اسی قسم میں یہ بھی شامل ہے کہ انسان اللہ تعالی کے سامنے اپنی محتاجی اور لاچاری بیان کرے جیسے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی ایوب علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ

ترجمہ: مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ [الأنبياء: 83]

انسان اپنی جان پر ڈھائے ہوئے ظلم اور اللہ کے سامنے اپنی مجبوری بھی رکھے، جیسے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی یونس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ: تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، تو پاک ہے، ظالموں میں سے تو میں ہی ہوں۔ [الأنبياء: 87]

شرعی وسیلے کی اقسام کا حکم الگ الگ ہے، چنانچہ اسما و صفات اور اللہ تعالی کی وحدانیت کے اقرار کو وسیلہ بنانا واجب ہے، جبکہ نیک اعمال کو وسیلہ بنانا مستحب ہے۔

ممنوع اور بدعتی وسیلہ:

یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کا قرب ایسے اعمال کے ذریعے تلاش کرے جنہیں اللہ تعالی پسند نہیں کرتا اور نہ ہی ان سے محبت فرماتا ہے، چاہے ان کا تعلق اقوال سے ہو یا افعال سے، یا عقائد سے، مثلاً:

مردوں یا غیر موجود لوگوں کو پکار کر اللہ کا قرب حاصل کرنا یا انہی سے مدد طلب کرنا وغیرہ تو یہ شرک اکبر ہے، یہ عمل انسان کو اسلام سے خارج کر دیتا ہے، یہ عقیدہ توحید سے متصادم ہے، کیونکہ اللہ تعالی سے دعائے طلب یعنی ایسی دعائیں جن میں ہم کوئی چیز طلب کریں یا کسی چیز کو دور کرنے کی دعا کریں ، یا دعائے عبادت یعنی ایسی دعائیں جن میں ہم اللہ تعالی کے سامنے اپنی عاجزی، انکساری وغیرہ کا اظہار کریں تو ایسی دعائیں غیر اللہ سے مانگنا جائز نہیں ہے، اگر کوئی ایسی دعائیں غیر اللہ سے مانگتا ہے تو یہ دعا میں شرک ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ

ترجمہ: اور تمہارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمھاری دعا قبول کروں گا۔ بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ [غافر: 60]

تو اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کی سزا ذکر کی ہے جو اللہ کو پکارنے سے تکبر کرتے ہیں [تکبر کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں] مثلاً: اللہ کی بجائے غیر اللہ کو پکارے یا غیر اللہ کو تو نہ پکارے لیکن خود پسندی تکبر میں مبتلا ہو کر سرے سے دعا مانگنا ہی چھوڑ دے، فرمانِ باری تعالی ہے:

اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً

ترجمہ: تم اپنے رب کو گڑگڑا کر اور خفیہ طور پر پکارو۔ [الأعراف: 55]
اس آیت میں صرف اللہ تعالی کو ہی پکارنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔

اللہ تعالی نے ایک جگہ جہنمی لوگوں کے متعلق فرمایا:

تَاللَّهِ إِنْ كُنَّا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (97) إِذْ نُسَوِّيكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ: اللہ کی قسم ہم تو یقینی طور پر واضح گمراہی میں تھے [97] جب ہم تم کو رب العالمین کے برابر قرار دیتے تھے۔[الشعراء: 97، 98]
تو اس آیت کی روشنی میں کوئی بھی ایسا کام جو غیر اللہ کو اطاعت اور عبادت میں اللہ تعالی کے برابر بنا دے وہ اللہ کے ساتھ شرک ہے۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

 وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ (5) وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ

ترجمہ: اور اس شخص سے بڑھ کر اور کون گمراہ ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر انہیں پکارتا ہے جو قیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتے بلکہ وہ ان کی پکار سے ہی بے خبر ہیں [5] پھر جب لوگ اکٹھے کئے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن بن جائیں گے اور ان کی عبادت کا یکسر انکار کر دیں گے۔ [الأحقاف: 5،6]

دوسری جگہ فرمایا:

وَمَنْ يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِنْدَ رَبِّهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ

ترجمہ: اور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے، جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں تو اس کا حساب صرف اس کے رب کے پاس ہے۔ بے شک حقیقت یہ ہے کہ کافر فلاح نہیں پائیں گے۔ [المؤمنون: 117]
اس آیت میں اللہ تعالی کے ساتھ غیر اللہ کو پکارنے والے لوگوں کو مشرک قرار دیا گیا ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ (13) إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ

ترجمہ: اور جن کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے ایک چھلکے کے مالک نہیں۔ [13] اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمھاری پکار نہیں سنیں گے اور اگر وہ سن لیں تو تمھاری درخواست قبول نہیں کرینگے اور قیامت کے دن تمھارے شرک کا انکار کر دیں گے اور تم کو پوری خبر رکھنے والے کی طرح کوئی خبر نہیں دے گا۔ [فاطر: 13، 14]
تو اس آیت میں اللہ تعالی نے یہ واضح فرما دیا کہ دعا کا مستحق صرف وہی ہے؛ کیونکہ وہی حقیقی مالک اور معاملات چلانے والا ہے اس کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ اللہ کے سوا جتنے بھی نام نہاد معبود ہیں ان میں سے کوئی بھی دعاؤں کو نہیں سنتا چہ جائیکہ وہ انہیں قبول کریں، بلکہ اگر فرض کر لیں کہ وہ دعائیں سنتے ہیں تو وہ اس کو قبول نہیں کر سکتے؛ کیونکہ وہ کسی قسم کے نفع یا نقصان کے مالک نہیں ہیں، ان میں ایسی کوئی صلاحیت ہی نہیں ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جن عرب مشرکوں کی طرف اسلام کی دعوت دینے کے لئے بعثت ہوئی تھی ان کا جرم بھی یہی یعنی دعا میں شرک کرنا تھا؛ کیونکہ مشرک تنگ حالات میں نہایت اخلاص کے ساتھ صرف اللہ تعالی کو ہی پکارتے تھے، لیکن جب انہیں خلاصی مل جاتی تو پھر اللہ کے ساتھ دوسروں کو پکارنے لگتے تھے، اللہ تعالی نے انہی مشرکوں کے بارے میں فرمایا:

فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ

ترجمہ: پھر جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے ہیں، اس حال میں کہ اسی کے لیے عبادت کو خالص کرنے والے ہوتے ہیں، پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف نجات دے دیتا ہے تو فوری شرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ [العنكبوت: 65]

ایسے ہی فرمایا:

وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ 

ترجمہ: اور جب سمندر میں تمہیں کوئی مصیبت آتی ہے تو اللہ کے سوا جس جس کو تم پکارا کرتے ہو وہ تمہیں بھول جاتے ہیں۔ پھر جب وہ تمہیں نجات دے کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو تم منہ پھیر لیتے ہو۔ [الإسراء: 67]

ایک اور مقام پر فرمایا:

 حَتَّى إِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ 

ترجمہ: حتیٰ کہ جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور وہ کشتیاں باد موافق سے انہیں لے کر چلتی ہیں اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں کہ (یکدم) ان کشتیوں کو آندھی آ لیتی ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگنے شروع ہو جاتے ہیں اور انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ اب گھیرے میں آ گئے تو اس وقت عبادت کو اسی کے لئے خالص کرتے ہوئے اللہ سے دعا مانگتے ہیں۔ [يونس: 22]

دوسری طرف آج کے کچھ لوگوں کا شرک سابقہ مشرکوں کے شرک سے بھی آگے نکل چکا ہے؛ کیونکہ آج کل کے لوگ تو تنگی میں بھی غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں اور انہی کو پکارتے ہیں، لا حول و لا قوۃ الا باللہ۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس سے محفوظ فرمائے۔

آپ کے ساتھی نے جو کچھ ذکر کیا ہے اس کو جواب دینے کے لئے مختصر بات یہ ہے کہ : میت سے دعا کرنا شرک ہے، اور زندہ فرد سے ایسی چیز کا مطالبہ کرنا جس پر صرف اللہ تعالی ہی قدرت رکھتا ہے یہ بھی شرک ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ

الشیخ محمد صالح المنجد

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android