ميں نے قاضى كے سامنے اپنى بيوى كو درج ذيل عبارت كہى:
ميں تجھ سے اللہ كى پناہ ميں آتا ہوں.
اس نے قاضى كے سامنے اعتراض كيا تھا، اور ميں نے اسے يہ الفاظ كہے تو ميں غصہ ميں تھا اور ميں طلاق كا ارادہ نہيں ركھتا تھا اور نہ ہى ميرى نيت طلاق تھى، ليكن قاضى نے ميرى بات نہيں مانى اور طلاق كا فيصلہ كر ديا كہ يہ طلاق بائن كبرى ہے.
ميرے تو ہوش و حواس ہى اڑ گئے اور مجھے پتہ ہى نہ چلا كہ ميں كيا كروں، چنانچہ ميں نے موبائل كے ذريعہ بيوى اور سسرال والوں كو ميسج كيا جس ميں لكھا تھا: آپ كى بيٹى كو طلاق مبارك ہو.
كيا يہ صحيح ہے كہ طلاق بائن كبرى ہو چكى ہے يا نہيں ؟
بيوى كو كہا: تيرے ساتھ زندگى بسر كرنا حرام ہے … اور قاضى نے طلاق كا فيصلہ دے ديا
سوال: 70443
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جب خاوند اپنى بيوى كو اپنے ليے حرام كر لے يعنى وہ كہے: تم مجھ پر حرام ہو، تو كيا يہ ظھار ہوگا يا كہ طلاق يا اس ميں قسم كا كفارہ ؟
اس ميں فقھاء كرام كا بہت زيادہ اختلاف پايا جاتا ہے، قاضى عياض رحمہ اللہ نے اس مسئلہ ميں چودہ اقوال نقل كيے ہيں اور امام نووى رحمہ اللہ نے مسلم كى شرح ميں بھى نقل كيے ہيں.
ان ميں راجح قول يہى معلوم ہوتا ہے كہ اگر وہ اس سے ظھار كى نيت كرے تو يہ ظھار ہوگا، اور اگر طلاق كى نيت كرے تو طلاق ہوگى اور اگر قسم كى نيت ركھتا ہو تو يہ قسم كہلائيگى، اس ليے يہ اس كى نيت پر منحصر ہے جو نيت كريگا وہى معاملہ ہوگا، امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے، اور ايك روايت ميں امام احمد رحمہ اللہ سے يہى منقول ہے.
اور اگر وہ اس سے كچھ نيت نہ ركھے تو پھر اسے قسم كا كفارہ ادا كرنا ہوگا، امام ابو حنيفہ اور امام شافعى كا مسلك يہى ہے.
كفارہ واجب ہونے كى دليل صحيح بخارى كى درج ذيل حديث ہے:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
” جب مرد اپنى بيوى كو اپنے ليے حرام كر لے تو يہ قسم ہے وہ اس كا كفارہ ادا كريگا.
اور انہوں نے فرمايا: تمہارے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بہترين نمونہ ہيں ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4911 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1473 ).
اس حديث كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” جب كوئى شخص اپنى بيوى كو ” تم مجھ پر حرام ہو ” كہے تو اس ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك يہ ہے كہ اگر اس نے طلاق كى نيت كى تو طلاق ہوگى، اور اگر ظھار كى نيت كى تو ظھار ہوگا، اور اگر بعينہ بغير طلاق اور ظھار كے حرام ہونے كى نيت كى تو اس پر نفس لفظ كے ساتھ قسم كا كفارہ لازم ہوگا، ليكن يہ قسم نہيں كہلائيگى.
اور اگر اس ميں كچھ بھى نيت نہ كرے تو امام شافعى كے دو قول ہيں: ان ميں زيادہ صحيح يہ ہے كہ اس پر قسم كا كفارہ لازم آئيگا، اور دوسرى قول يہ ہے كہ: يہ لغو ہے اس ميں كچھ نہيں اور اس كے نتيجہ ميں كوئى حكم مرتب نہيں ہوگا، ہمارا يہى مذہب ہے.
اور قاضى عياض رحمہ اللہ نے اس مسئلہ ميں چودہ قول نقل كيے ہيں:
پہلا:
امام مالك رحمہ اللہ كے مسلك ميں مشہور يہ ہے كہ اس سے تين طلاق واقع ہو جاتى ہيں، چاہے عورت سے دخول ہو چكا ہو يا نہ ہوا ہو، ليكن اگر اس نے تين طلاق سے كم كى نيت كى تو غير مدخولہ عورت كے ليے خاص طور پر قبول كيا جائيگا، ان كا كہنا ہے: على بن ابى طالب رضى اللہ عنہ اور زيد اور حسن اور حكم كا بھى يہى مسلك ہے ….. الخ ” انتہى
چنانچہ مالكيوں كا مسلك يہ ہے كہ: اس حرمت سے تين طلاق واقع ہو جائينگى، تو اس طرح بينونت كبرى واقع ہو جائيگى اور ظاہر يہى ہوتا ہے كہ قاضى نے اسى مذہب كى بنا پر حكم لگايا ہے، اور آپ كے خاوند كے قول: ” آپ كے ساتھ زندگى بسر كرنا حرام ہے ” كو اس حرمت ميں شامل كيا ہے جس ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے.
مالكيہ نے بيان كيا ہے كہ جس شخص نے بھى زندگى بسر كرنا حرام قرار ديا اور اس سے اپنى بيوى كى نيت كى تو اس سے تين طلاق ہو جائينگى.
ديكھيں: حاشيۃ الدسوقى ( 2 / 382 ) اور فتح العلى المالك ( 2 / 34 ).
ہم نے اس مسئلہ ميں فقھاء كے اقوال ميں سے وہ قول پيش كيا ہے جو راجح معلوم ہوتا ہے، اور اس مسئلہ ميں نيت كى طرف اشارہ كرنا باقى ہے، اور اسى طرح قسم يا طلاق يا ظھار كى نيت ميں فرق بھى.
اس كے بارہ ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اگر كوئى قائل يہ كہے كہ: ان تين امور ( يعنى طلاق، ظھار اور قسم ) ميں كيا فرق ہے ؟
تو ہم كہيں گے: ان ميں فرق يہ ہے كہ:
پہلى حالت: قسم ميں اس نے حرام كرنے كى نيت نہيں كى ليكن ممانعت كى ايك قسم كى نيت كى ہے، يا تو معلق يا پھر غير معلق، مثلا وہ كہے: اگر تم نے ايسے كيا تو تم مجھ پر حرا ہو، تو يہ معلق ہے، اس كا مقصد اپنے ليے بيوى كو حرام كرنا نہ تھا، بلكہ اس كا مقصد تو بيوى كو اس كام سے روكنا اور منع كرنا ہے.
اور اسى طرح يہ الفاظ: ” تم مجھ پر حرام ہو ” سے اس كا مقصد بيوى كور وكنا ہے، تو ہم يہ كہتے ہيں كہ: يہ قسم ہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) آپ اس چيز كو اپنے ليے حرام كيوں كرتے ہيں جسے اللہ نے آپ كے ليے حلال كيا ہے، آپ اپنى بيويوں كى رضامندى حاصل كرنا چاہتے ہيں …..
پھر اس كے بعد اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمايا:
يقينا اللہ سبحانہ و تعالى نے تمہارے ليے تمہارى قسموں كو كھولنا واجب كر ديا ہے .
اللہ كا فرمان: اللہ نے آپ كے ليے جو حلال كيا ہے.
اس ميں ما اسم موصولہ ہے جو عموم كا فائدہ ديتا ہے اور يہ بيوى اور لونڈى اور كھانے پينے اور لباس وغيرہ سب كو شامل ہے، تو اس كا حكم قسم كا حكم ہے.
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:
” جب كوئى شخص اپنى بيوى سے كہے: تم مجھ پر حرام ہو تو يہ قسم ہے وہ اس كا كفارہ ادا كريگا، اور اس كا اس آيت سے استدلال ظاہر ہے.
دوسرى حالت:
اس سے خاوند طلاق كا ارادہ ركھتا ہو اور ” تم مجھ پر حرام ہو ” يعنى ميں تجھے چھوڑنے والا ہوں، اور وہ اپنے ساتھ نہ ركھنا چاہتا ہو، اور وہ ان الفاظ كے ساتھ اسے چھوڑنے كا ارادہ كرے تو يہ طلاق كہلائيگى اس ليے كہ يہ عليحدگى كے ليے صحيح، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور ہر شخص كے ليے وہى ہے جو اس نے نيت كى ”
تيسرى حالت:
اس سے ظھار كا ارادہ كيا ہو، ظھار كا معنى يہ ہے كہ وہ بيوى اس پر حرام ہے، بعض اہل علم كا كہنا ہے كہ يہ ظھار نہيں كيونكہ اس ميں ظھار كے الفاظ نہيں ہيں.
اور بعض علماء كہتے ہيں كہ يہ ظھار ہے؛ كيونكہ بيوى سے ظھار كرنے والے كے قول كا معنى يہى ہے ” تم مجھ پر ميرى ماں كى پشت كى طرح ہو ” اس كا معنى حرام كے علاوہ كچھ نہيں ليكن اس نے اسے حرمت كے سب سے اعلى درجہ سے مشابہت دى ہے اور وہ ماں كى پشت ہے، اس ليے كہ يہ اس پر سب سے زيادہ حرام ہے تو يہ ظھار كہلائيگا ” انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 476 ).
ہم نے يہ تين حالات اس ليے ذكر كيے ہيں كيونكہ بعض لوگ كہتے ہيں: ميرا مقصد طلاق نہ تھى، حالانكہ فى الواقع وہ اپنى بيوى كو چھوڑنا چاہتا ہے اور اسے اپنے ساتھ نہيں ركھنا چاہتا، اور طلاق كا بھى يہى مقصد ہے.
فقھى طور پر يہى ذكر كرنا ممكن ہوا ہے، پھر قضاء كے ليے سائل كى حالت اور اس كے الفاظ كو ديكھا جائيگا اورا س كے ساتھ اس پر قرائن كو بھى مدنظر ركھا جائيگا، اس طرح كے مسائل كے حكم ميں فقھاء كرام نے اختلاف كيا ہے، سنت نبويہ ميں اس كى كوئى نص نہيں ملتى جس سے نزاع ختم ہو سكے لہذا اس ميں آخرى حكم قاضى كا ہوگا.
اس ليے علماء كرام كا كہنا ہے: قاضى كا حكم جھگڑے كو ختم كر ديتا ہے ”
لہذا آپ كے ليے قاضى كے فيصلہ پر عمل كرنا لازم ہے اور اس كى مخالفت كرنا جائز نہيں.
اور اگر آپ كو قاضى كے فيصلہ پر كوئى اعتراض ہے تو آپ عدالت سے رجوع كريں، اور اپنے موضوع ميں نظر ثانى كرنے كى درخواست كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد