0 / 0

چھوٹى عمر ميں فوت شدہ نمازوں كى قضاء كر لى اور وہ مسلسل قضاء كرنا چاہتى ہے

سوال: 82326

ميرى والدہ نے بچپن ميں كچھ برس نمازيں ادا نہيں كى تھيں، اور جب ايك عالم دين سے سنا كہ فوت شدہ نمازوں كى قضاء ضرورى ہے تو وہ اس پر نادم ہوئيں اور توبہ كرتے ہوئے اللہ تعالى كے ساتھ عہد كيا كہ وہ جب تك زندہ ہيں فوت شدہ نمازوں كى قضاء كرتى رہينگى، اور بالفعل اپنا وعدہ نبھايا اور جتنے برس نماز ادا نہيں كى تھى اس كى قضاء كى، ليكن وہ ہميں يہ كہتى ہيں كہ ميرے ذمہ نمازوں كى قضاء كرتے رہنا لازم ہيں، كيونكہ جب ميں نے اپنے رب سے عہد كيا تھا تو يہ كہا تھا جب ميں زندہ رہونگى، اور ميں زندہ ہوں حالانكہ وہ فرائض ادا كرتى ہيں نہ كہ نوافل، اور انہيں علم بھى ہے كہ انہوں نے فوت شدہ نمازوں كى قضاء مكمل كر لى ہے، كيا ان كا يہ عمل صحيح ہے ؟

اور كيا اسے نذر شمار كيا جائيگا ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

جمہور فقھاء كرام كا كہنا ہے كہ جس نے بھى بلوغت كے بعد كچھ مدت نمازيں ترك كى ہوں اس كے ذمہ ترك كردہ نمازوں كى قضاء لازم ہے، اور اگر اسے نمازوں كى تعداد كا علم نہ ہو تو وہ ظن غالب كے مطابق نمازوں كى قضاء كرے.

يہ جاننا ضرورى ہے كہ اس نے جو نمازيں بلوغت سے قبل ترك كى تھى اس كے ذمہ ان كى قضاء نہيں، كيونكہ اس وقت تو وہ مكلف ہى نہ تھى.

اور بعض اہل علم كا كہنا ہے كہ: جس نے عمدا نمازيں ادا نہ كى ہوں اس كے ذمہ قضاء نہيں، بلكہ اس كے ذمہ اس سے توبہ كرنا اور مستقبل ميں بہتر عمل كرنے كا عہد كرنا لازم ہے.

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 7969 ) اور (72216 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

بہر حال آپ كى والدہ كى حق ميں مشروع يہ ہے كہ وہ كثرت سے توبہ و استغفار كريں، اور نوافل ادا كرتى رہيں، تا كہ يہ اميد كى جا سكے كہ اللہ تعالى ان كى توبہ قبول كرلے.

اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور يقينا بلا شبہ ميں اسے بخش دينے والا ہوں جو توبہ كرتا ہے، اور ايمان لے آتا ہے، اور اعمال صالحہ كر كے ہدايت اختيار كرتا ہے طہ ( 82 ).

اور آپ كى والدہ كا يہ كہنا كہ: ميں نے اپنے رب سے عہد كيا تھا كہ جب تك زندہ رہونگى فوت شدہ نمازوں كى قضاء كرتى رہونگى:

يہ اس بات كى نذر ہے كہ وہ فوت شدہ نمازوں كى قضاء كرينگى، اور وہ يہ كام كر چكى ہيں، اور انہوں نے اپنى نذر پورى كر لى ہے، اس ليے ان كے ليے نمازوں كى قضاء مسلسل كرنى لازم نہيں، كيونكہ وہ بالفعل مكمل كر چكى ہيں كيونكہ نماز كى قضاء صرف ايك بار ہوتى ہے.

اور ان كا يہ كہنا: جب تك زندہ رہونگى: ظاہر يہ ہوتا ہے كہ اس عبارت كا معنى يہ ہے كہ جب تك وہ زندہ رہينگى اپنى نذر پورى كرينگى، اور بيمارى يا كسى اور شغل كى بنا پر نماز ترك نہيں كرينگى.

اور اگر وہ نماز كى ادائيگى جارى ركھنا چاہيں تو يہ بہتر عمل ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى رغبت دلاتے ہوئے فرمايا ہے:

” نماز بہترين موضوع ہے، جو بھى كثرت سے ادا كر سكتا ہے وہ كثرت سے ادا كرے ”

اسے طبرانى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 3870 ) ميں ذكر كيا ہے.

ليكن اس ميں ان كى نيت نفلى نماز كى ہو گى نا كہ فوت شدہ نمازوں كى قضاء كى نيت.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android