0 / 0

عقيقہ ميں شراكت كا حكم

سوال: 82607

كيا جڑواں بچوں ( بچہ اور بچى ) كے عقيقہ ميں تين بكروں كى بجائے ايك بچھڑا يا گائے ذبح كرنى جائز ہے، اگر جواب مثبت ہو تو اس كى مواصفات كيا ہونگى ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

سنت تو يہ ہے كہ بچے كى جانب سے دو اور بچى كى جانب سے ايك بكرا ذبح كيا جائے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كا بچہ پيدا ہو اور وہ اس كى جانب سے جانور ذبح كرنا پسند كرے تو ذبح كر لے، بچے كى جانب سے دو اور بچى كى جانب سے ايك پورا بكرا ذبح كيا جائے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2843 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور جمہور علماء كرام كے ہاں بكرا اونٹ اور گائے كفائت كر جاتا ہے، ليكن ان ميں يہ اختلاف ہے كہ آيا يہ قربانى كا حكم حاصل كريگا يا نہيں تا كہ گائے اور اونٹ ميں شراكت صحيح ہو سكے ؟

قريب ترين بات يہ ہے كہ اس ميں اشتراك صحيح نہيں مالكيہ، اور حنابلہ كا يہى مسلك ہے.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 30 / 279 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عقيقہ ميں شراكت كفائت نہيں كرتى، چنانچہ دو بچوں كى جانب سے نہ تو اونٹ كفائت كرتا ہے، اور نہ ہى گائے، اور بالاولى تين اور چار بچوں كى جانب سے كفائت نہيں كريگا، اس كى وجہ يہ ہے كہ:

اول:

اس ميں شريك ہونا ثابت نہيں، اور عبادات توقيف پر مبنى ہوتى ہيں.

دوم:

يہ فديہ ہے، اور فديہ كے حصے نہيں ہوتے؛ چنانچہ يہ جان كى طرف سے فديہ ہے، تو جب جان كى جانب سے فديہ ہوا تو پھر ضرورى ہے كہ وہ بھى جان ہى ہو، اور پہلى علت بلا شك زيادہ صحيح ہے، كيونكہ اگر اس ميں شركت ثابت ہوتى تو دوسرى تعليل باطل تھى، تو اس كا ثبوت نہ ملنا ہى حكم بر مبنى ہے " انتہى.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android