0 / 0

کیا طواف اورسعی کےلیے طہارت شرط ہے ؟

سوال: 34695

دوران طواف میرا وضوء ختم ہوگيا تومجھے یہ علم نہيں تھا کہ میں کیا کروں ، لھذا میں نے طواف سے نکل کروضوء کیا اورطواف دوبارہ کیا اورپھرصفا مروہ کے مابین سعی کی ، توکیا میرا یہ فعل صحیح ہے ؟ اورمجھے کیا کرنا چاہیے تھا ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

آپ نے وضوء اورطواف کرکےاچھا اوربہتر اوراحسن اوراحتیاط والا کام کیا ہے ، اکثرعلماء کرام کا مسلک ہے کہ نماز کی طرح طواف کےلیے بھی طہارت ووضوء کرنا شرط ہے ، توجس طرح وضوء کے بغیرصحیح نہيں اسی طرح طواف بھی بغیر وضوء کے صحیح نہیں ہے ۔

ابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

طواف کی صحت کےلیے وضوء شرط ہے ، امام احمد سے مشہور یہی ہے اورامام مالک ، امام شافعی رحمہمااللہ کا بھی یہی قول ہے ۔ اھـ

جمہورعلماء کرام نے اس قول پرکئي ایک دلائل سے استدلال کیا ہے جن میں سے چندایک یہ ہیں :

1 – نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

بیت اللہ کا طواف نماز ہے ، لیکن اس میں تم کلام کرسکتے ہو ۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 960 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 121 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

2 – صحیحین میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہاسے مروی ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب طواف کرنے کا ارادہ کرتے توآپ وضوء کرتے تھے ۔

اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : مجھ سے اپنے مناسک حاصل کرلو( حج وعمرہ کا طریقہ حاصل کرلو ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1297 ) ۔

دیکھیں : فتاوی الشیخ ابن بازرحمہ اللہ تعالی ( 17 / 213 – 214 ) ۔

3 – صحیحین میں ہے کہ جب عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کوحیض آیا تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں فرمایا تھا :

( تم حاجیوں والے سارے اعمال سرانجام دو لیکن پاک صاف ہونے سے قبل طواف نہ کرنا ) ۔

اورشیخ ابن بازرحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذیل سوال کیا گیا :

میری ایک قریبی رشتہ دارنے رمضان المبارک میں عمرہ ادا کیا لیکن جب وہ حرم میں داخل ہوئي تواس کی ہواخارج ہونے سے وضوء ٹوٹ گیا لیکن اس نے شرم کے مارے اپنے گھروالوں کونہيں بتایا کہ وہ وضوء کرنا چاہتی ہے ، تواس نے اسی حالت میں طواف کرلیا اورجب طواف سے فارغ ہوئي تواکیلے ہی جاکروضوء کیا اورسعی کی توکیا اس پردم ہے یا کفارہ ؟

توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

اس کا طواف صحیح نہیں ، کیونکہ نماز کی طرح طواف کے صحیح ہونے کے لیے بھی طہارت ( یعنی وضوء شرط ہے ) تواس لیے اسے مکہ جاکربیت اللہ کا طواف کرنا چاہیے ، اوراس کے لیے سعی بھی دوبارہ کرنا مستحب ہے ، کیونکہ اکثراہل علم طواف سے قبل سعی کرنا جائزقرار نہيں دیتے ، اس لیے طواف اورسعی کرنے کےبعد وہ اپنے سرکے بال کاٹ کراحرام سے حلال ہوجائے گی ۔

اور اگر وہ شادی شدہ ہے اور اس کے خاوند اس سے ہم بستری کر لی ہے تو اس عورت پر دم لازم آتا ہے کہ وہ ایک بکرا مکہ میں ذبح کر کے وہاں کے فقرا میں تقسیم کرے ، اور اسے چاہیے کہ وہ اس میقات سے احرام باندھ کر نیا عمرہ کرے جہاں سے اس نے پہلے عمرہ کا احرام باندھا تھا ، کیونکہ پہلا عمرہ جماع کی وجہ سے فاسد ہو چکا ہے ۔

لھذا اس عورت کے ذمہ ہے وہ وہی عمل کرے جوہم نے ذکر کیے ہیں اورپھراسی میقات سے عمرہ کا حرام باندھے جہاں سے پہلے عمرہ کا احرام باندھا تھا ، چاہے اسی وقت یا حسب استطاعت کسی دوسرے اوقات میں یہ عمل کرے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی الشیخ ابن باز رحمہ اللہ ( 17 / 214 – 215 ) ۔

شیخ رحمہ اللہ تعالی سے یہ بھی سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے طواف شروع کیا تواس کی ہواخارج ہوگئي توکیا وہ طواف ختم کردے یا جاری رکھے ؟

توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

جب انسان کا ہوا خارج ہونے یا پیشاب اورپاخانہ یا منی خارج ہونے اورشرمگاہ کوہاتھ لگ جانے کی بنا پروضوء ٹوٹ جائے تونماز کی طرح اس کا طواف بھی ختم ہوجائے گا توصحیح یہی ہے کہ وہ جاکروضوء کرے اورطواف دوبارہ کرے ، اس مسئلہ میں اختلاف توہے لیکن نماز اورطواف سب میں صحیح یہی ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

( جب نماز میں تم میں سے کسی ایک کی ہوا خارج ہوجائے تووہ جاکر وضوء کرے اورنماز لوٹائے ) اسے ابوداود رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا ہےاورابن خزیمہ رحمہ اللہ تعالی نے صحیح قراردیا ہے ۔

اورطواف بھی جنس نماز میں سے ہی ہے ۔۔۔ اھـ

دیکھیں : مجموع فتاوی الشیخ ابن باز ( 17 / 216 – 217 ) ۔

اوربعض علماء کرام کاکہنا ہے کہ طواف کےلیے وضوء شرط نہيں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا مسلک یہی ہے اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے بھی اسے ہی اختیار کیا ہے ، اورپہلے قول کے دلائل کوجواب دیتے ہوئے کہتے ہیں :

جس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ بیت اللہ کا طواف نماز ہے اس میں یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نہيں بلکہ صحیح یہ ہے کہ یہ قول ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کا ہے ، امام نووی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب المجموع میں کہتے ہیں : صحیح یہ ہے کہ یہ ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما پرموقوف ہے ، امام بیھقی اورحافظ وغیرہ رحمہم اللہ نے اسی طرح ذکر کیا ہے ۔ اھـ

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل کہ آپ نے باوضوء ہوکرطواف کیا ہے اس کے بارہ میں ان کا کہنا ہے کہ : یہ وجوب پردلالت نہیں کرتا ، بلکہ صرف استحباب پردلالت کرتا ہے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل کیا تو ہے لیکن یہ وارد نہيں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کواس کا حکم بھی دیاہے ۔

اورعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ : ( تم حاجیوں والے سارے کام سرانجام دو لیکن طہر سے قبل بیت اللہ کا طواف نہ کرنا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے طواف کرنے سےاس لیے منع کیا تھا کہ وہ حائضہ تھیں ، اورحائضہ عورت کےلیے مسجد میں داخل ہونا منع ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

جولوگ طواف کےلیے وضوء کرنا واجب قرار دیتے ہیں ان کے پاس اصلا کوئي حجت اوردلیل نہیں ہے ، کیونکہ کسی ایک نے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحیح اورنہ ہی ضعیف سند کے ساتھ یہ نقل نہيں کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کے لیے وضوء کرنے کا حکم دیا ہو ، باوجود اس کے کہ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت ساری خلقت نے حج کیا تھا ۔

اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئي ایک عمرے بھی ادا فرمائے اورآپ کےساتھ صحابہ کرام بھی عمرہ کرتے تھے لھذا اگر طواف کے لیے وضوء کرنا فرض ہوتا تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس عمومی طورپربیان فرماتے ، اوراگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بیان فرماتے تومسلمان اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل بھی کرتے اوراس کے نقل کرنے میں سستی وکاہلی سے کام نہ لیتے ، لیکن صحیح میں یہ ثابت ہے کہ جب آپ نے طواف کیا تووضوء کیاتھا تویہ اکیلا وجوب پردلالت نہيں کرتا ۔

کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرنماز کےلیے وضوء کرتے تھے اورآپ نے یہ بھی فرمایا ہے :

( میں وضوء کے بغیر اللہ تعالی کا ذکر کرنا ناپسند کرتا ہوں ) اھـ

دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 21 / 273 ) ۔

اوریہ قول – یعنی طواف کے لیے وضوء شرط نہيں – اپنی قوت اوراس کے بارہ میں دلائل ہونے کے احتمال کے باوجود انسان کے شایان شان نہیں کہ وہ بغیر وضوء ہی طواف کرت پھرے ، وہ اس لیے کہ بلا شک وشبہ باوضوء ہوکرطواف کرنا افضل اوربہتر اوربری الذمہ ہونے کےلیے زيادہ محتاط ہے ، اوراسی طرح انسان جمہور علماء کرام کی مخالفت سے بھی بچ جاتا ہے ۔

لیکن انسان کےلیے اس وقت اس پرعمل کرنے میں وسعت ہے کہ جب وضوء کا خیال رکھنے میں بہت زيادہ مشقت کا باعث ہو وہ اسطرح کہ موسم میں یعنی ازدھا اورجب انسان مریض ہواوروضوء قائم نہ رکھ سکتا ہو یا اتنا بوڑھا ہوکہ وضوء قائم رکھنا مشقت کا باعث ہے وہ ازدھام کی وجہ سے اس کی حفاظت نہيں کرسکتا اوراس کا دفاع نہيں کرسکے تواس پرعمل کرسکتا ہے ۔

شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی جمہورعلماء کرام کے دلائل کا جواب دینے کے بعد کہتے ہيں :

تواس بنا پرراجح جس پردل بھی مطمئن ہوتا ہے یہی ہے کہ : طواف میں حدث اصغر سے وضوء کرنے کی شرط نہيں ہے ،لیکن بلاشک وشبہ افضل اور اکمل اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع وپیروی اسی میں ہے کہ وہ وضوء کرےاورجمہورعلماء کرام بھی مخالفب بھی انسان کوزيب نہيں دیتی ۔

لیکن بعض اوقات انسان وہ قول کہنے پربھی مجبور ہوجاتا ہے جوشیخ الاسلام رحمہ اللہ کا قول ہے : مثلا : اگرشدید رش میں کسی شخص کا وضوء ٹوٹ جائے تویہ کہنا کہ وہ اس شدید قسم کے رش میں جاکروضوء کرے اورآکرطواف کرے ، اورخاص کرجب طواف کے چکر کا کچھ حصہ ہی باقی رہتا ہو تواس میں بہت زيادہ مشقت ہے ، اورجس میں شدید مشقت ہوتی ہو اوراس میں کوئي واضح اورظاہرنص بھی نہ ملتی ہو تواسے لوگوں پرلازم نہيں کرنا چاہیے یہ اس کے لائق ہی نہيں ۔

بلکہ ہم اس کی پیروی کریں گے جواس سے آسان اورمیسر ہو ، کیونکہ بغیر کسی دلیل کے لوگوں پروہ چيزلازم کرنا جس میں ان کے لیے مشقت ہواللہ تعالی کے مندرجہ ذيل فرمان کے منافی ہے :

اللہ تعالی تمہارے لیے آسانی پیدا کرنا چاہتا ہے اوروہ تمہارے لیے مشکل پیدا نہيں کرنا چاہتا البقرۃ ( 185 ) ۔

دیکھیں : الشرح الممتع لابن عثيمین ( 7 / 300 ) ۔

اورسعی کے بارہ میں یہ ہےکہ اس میں وضوء کی شرط نہيں ، آئمہ اربعہ امام مالک ، امام شافعی ، امام ابوحنیفہ ، امام احمد رحمہم اللہ کا یہی مسلک ہے ، بلکہ حائضہ عورت کےلیے صفا مروہ کی سعی کرنا جائزہے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورت کوسعی کرنے سے منع نہيں فرمایا بلکہ صرف طواف کرنے سے منع فرمایا ہے ۔

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب انہيں حیض آیا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں فرمایا تھا :

( حاجیوں والے سارے کام سرانجام دو لیکن پاک صاف ہونے تک صرف بیت اللہ کا طواف نہ کرنا ) دیکھیں : المغنی لابن قدامۃ ( 5 / 246 ) ۔

شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

لھذا اگرکسی نے بغیر وضوء یا جنبی حالت میں سعی کرلی یا پھرکسی عورت نے حیض کی حالت میں سعی کرلی تواس کی یہ سعی کافی ہوگي ، لیکن افضل اوربہتریہ ہے کہ وہ طہارت وپاکیزکی پرسعی کرے ۔

دیکھیں : الشرح الممتع ( 7 / 310 – 311) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android